امریکی عدالت نے حکومت کی جانب سے شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر مجوزہ پابندی کے قانون کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون امریکی آئین میں دی گئی اظہار رائے کی آزادی کے خلاف نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق، امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے ضلع کولمبیا کی ٹرائل کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔ تین رکنی ٹرائل بینچ نے حکومتی فیصلے کو یکساں طور پر منظور کیا، جو ٹک ٹاک کے لیے ایک بڑا دھچکہ سمجھا جا رہا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ امریکی حکومت کا یہ قانون غیر ملکی کمپنی کے کنٹرول پر توجہ مرکوز کرتا ہے، لیکن اس کا مقصد ٹک ٹاک پر مواد یا تقریر کو نشانہ بنانا نہیں ہے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ امریکی آئین اور قانون قومی سلامتی کو یقینی بنانے کا ضامن ہیں اور اس قانون کے ذریعے ٹک ٹاک کے خلاف اقدام اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہیں لگاتا۔ امریکی محکمہ انصاف اور دیگر حکومتی عہدیداروں نے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے امریکیوں کی فتح قرار دیا ہے۔
دوسری طرف، ٹک ٹاک نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کمپنی نے اس فیصلے کو 17 کروڑ امریکی صارفین کے حقوق کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔
امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کے حوالے سے ایوان نمائندگان (کانگریس) اور سینیٹ دونوں نے اپریل 2024 میں بل منظور کیا تھا، جس کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے 25 اپریل کو اس پر دستخط کیے تھے، اور یہ قانون بن گیا۔ اس قانون کے تحت ٹک ٹاک کو آئندہ 9 ماہ کے اندر کسی امریکی کمپنی یا فرد کو فروخت کرنا ضروری ہوگا، بصورت دیگر اس پر امریکا میں پابندی عائد کر دی جائے گی۔ اس قانون میں امریکی صدر کو یہ اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ فروخت کی مدت میں مزید تین ماہ کا اضافہ کر سکتے ہیں۔
اس سے پہلے، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن اس وقت عدالتوں نے پابندی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ اس بار عدالت نے حکومتی فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اظہار رائے کی آزادی کے خلاف نہیں ہے۔
The post ٹک ٹاک پر مجوزہ پابندی کا فیصلہ عدالت میں برقرار appeared first on ABN News.