0

تحصیل پنڈ دادن خان کی پسماندگی اور محرومیاں

تحریر: ملک ظہیر اعوان ٹوبھہ
2024 اگیا اور 2023 گزر گیا لیکن تحصیل پنڈ دادن خان کی پسماندگی اور محرومیاں دور نہ ہو سکیں علاقہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے مین سڑکیں گڑھوں اور گندے جوہڑوں میں تبدیل ہو چکی ہیں لنکس روڈ لاوارث پڑی ہیں پانچ لاکھ سے زائد ابادی کے لیے نہ سڑکیں ،نہ صاف پانی ،نہ صحت کی سہولیات نہ ڈاکٹرز ،نہ بجلی کے وولٹیج ،نہ سوئی گیس ،نہ ہی نکاسی آب ،نہ انصاف نہ فنڈز ،نہ نہ سکول، نہ کالج ،نہ ہسپتال سکولوں میں ہیڈ ماسٹر ،نہ ہیڈ مسٹریس ، نہ پینے کا صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی کوئی دیگر سہولیات موجود ہیں علاقہ تھل کے عوام اج بھی ایک گھات سے پانی پینے پر مجبور ہیں انسان اور جانور اج بھی اکٹھے پانی پی رہے ہیں پختہ راستے پکے نہیں کیے جا رہے جس کی وجہ سے ترقی کا پہیہ جام ہو چکا ہے للہ شریف، کندوال اور ٹوبھہ کی ہزاروں افراد پر مشتمل ٹھوکوں کی جانب جانے والے راستے نا پختہ ہیں جن پر موسم برسات میں پیدل چلنا بھی دشوار ہوتا ہے عوام انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں تحصیل بھر میں وٹرنری ہسپتالوں کی تمام بلڈنگز بھوت بنگلوں میں تبدیل ہو چکی ہیں
اب ڈاک خانوں کی بلڈنگز ان بنگلوں میں تبدیل ہونا جا رہی ہیں ٹوبھہ اور کندوال میں نئے بینکوں کی اشد ضرورت ہے تحصیل پنڈدن خان کی کل لمبائی 80 کلومیٹر ہے جس میں پختہ روڈ کا ایک انچ بھی ٹکڑا موجود نہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر جہلم پہنچنا محال ہو چکا ہے تمام لنکس روڈ بھی تباہ و برباد ہو چکی ہیں جن پر پیدل چلنا بھی مشکل ہی نہیں بلکہ دشوار ہو چکا ہے نئے پاکستان میں حلقہ کے سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے للہ انٹرچینج پنڈ دادن خان جہلم ڈیول کیرج وے کے لیے 14 ارب روپے منظور کرائے جس کو پانچ فیزز میں تقسیم کر کے تین فیزز پر یک دم کام شروع کروا دیا گیا جو کہ حلقہ کے عوام کے لیے وبال جاں بن چکا ہے روڈ کا کام شروع ہوئے ابھی چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ پی ڈی ایم کی حکومت اگئی لیکن اس میں موجود پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی بجٹ میں اس روڈ کے لیے فنڈز نہ رکھوا سکی جس پر احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہو گیا علاقہ کی معروف مذہبی شخصیات حضرت علامہ پیر محمد انور قریشی ہاشمی دامت برکاتہم العالیہ ، علامہ مفتی بشیر احمد کرم اور تمام مکاتب فکر کے علماء نے تحصیل بھر میں شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کروا دی اس کے بعد ایک ارب 80 کروڑ روپے منظور شدہ کی ایک قسط تقریبا 50 کروڑ روپے ریلیز کیے گئے جس سے ایف ڈبلیو او کنٹریکٹرز نے دوبارہ کام شروع کر دیا ہے لیکن ڈیول کیرج وے ورکنگ کمیٹی نے دوبارہ اگلے لایا عمل کے لیے سر جوڑ لیے ہیں