0

پنڈدادنخان پولیس والوں نے بدمعاشی اور دیدہ دلیری کی انتہا کر دی

پنڈدادنخان (بیوروچیف ملک ظہیر اعوان) تحصیل پنڈدادنخان کے تھانہ للہ میں پولیس نے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیے بدمعاشی اور دیدہ دلیری کی انتہا کر دی نہ خوف خدا نہ آئی جی پنجاب اور نہ ہی وزیر اعلی پنجاب کا ڈر اور خوف رہا آر پی او راولپنڈی اور ڈی پی او جہلم کو بھی کچھ نہ سمجھنے لگے ایس ایچ او تھانہ للہ کی سربراہی میں چھوٹے تھانے داروں اور سپاہیوں نے ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے رشوت کا دور دورہ ہے پولیس والے نسل نو کی تباہی کا موجب بن رہے ہیں نوجوانوں کو ڈکیتیوں اور دیگر بے راہ روی کے سبق دے رہے ہیں ان لوگوں نے پورے تھانہ للہ کے علاقہ میں ایسے نوجوان لڑکے اپنے ٹاؤٹ رکھے ہوئے ہیں جو زیادہ تر سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں وہ لڑکے ان پولیس ملازمین کو شکار تلاش کر کے دیتے ہیں تو یہ اہلکار بغیر کسی ثبوت کے ان پر جھپٹ پڑتے ہیں ایس ایچ او ان تمام اہلکاروں کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکا ہے لیکن یہ سارا کام ان کی سرپرستی میں ہی ہو رہا ہے کیوں کہ وہ اہل کاروں کو منع تک نہیں کرتے جس دن سے ایس ایچ او فرخ صغیر نے چارج سنبھالا ہے اس دن سے نیچے والا عمل شتر بے مہار بن چکا ہے جب جس کا جی چاہتا ہے کسی بے گناہ کو اٹھا کر تھانے لے آتا ہے یہ خود شراب اور دیگر ممنوعہ اسلحہ اور چرس وغیرہ لوگوں پر ڈالتے ہیں جب کوئی مقدمہ قتل تھانے میں آتا ہے تو وہ اس پولیس کے لیے سونے کی چڑیا بن جاتا ہے فل فور تمام اہلکاروں کے کمرے چیک کیے جائیں اور ان کے موبائل فون کا ڈیٹا حاصل کیا جائے تو سب کچھ سامنے آ جائے گا گزشتہ دنوں سپاہی مظہر اور اے ایس آئی بشارت اور دیگر اہلکاروں نے للہ شریف کے رہائشی دو نوجوانوں کو اٹھا کرتھانے میں بند کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے خلاف ڈکیتی کا مقدمہ درج کر دیا ان کا ایک دوست ان کا پتا کرنے تھانے گیا تو اس کو بھی ساتھ ملا کر ڈکیت بنا دیا جب پولیس تینوں لڑکوں کا ریمانڈ لینے پنڈدادنخان عدالت پہنچی تو لڑکوں نے حال-دہائی شروع کر دی کہ یہ پولیس والے ہمیں بے گناہ ڈکیتی میں پھنسا کر ہمارے اوپر بے پناہ تشدد کر رہے ہیں جس پر جوڈیشل مجسٹریٹ جناب محمد حنیف صاحب نے سب انسپکٹر بٹ کی سخت سرزنش کی اور کہا کہ یہ لڑکے تمھیں ڈکیت نظر آتے ہیں جاؤ مقدمہ اخراج کی رپورٹ بنا کر لاؤں جس پر سب انسپکٹر نے لکھا کہ ان سے کوئی چیز برآمد نہیں ہوئی جس پر جوڈیشل مجسٹریٹ نے مقدمہ خارج کردیا اور تینوں نوجوان لڑکوں کو رہائی مل گئی اور غریبوں کی مزید ذلیل ہونے سے جان چھوٹ گئی رہائی ملنے پر تھانہ للہ پولیس کے ظلم کا شکار ہونے والوں نے جوڈیشیل مجسٹریٹ صاحب کو بہت دعائیں دیں کہ اگر آج وہ سٹینڈ نہ لیتے تو پولیس نے ہمیں پکا ڈکیت گروہ بنا دینا تھا ڈکیتی کے مقدمہ سے باعزت بری ہونے کے بعد تینوں دوست روزنامہ اوصاف آفس پہنچ گئے اور تمام پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور نوکری سے برطرف کرنے کا مطالبہ کردیا للہ شریف کے رہائشی نوازش علی ٹیلر نے بوجھل دل اور آنسوؤں کی جھڑی کے دوران آھیں اور سسکیاں لے لے کر بتایا کہ میں للہ شریف میں ٹیلرنگ کا کام کرتا ہوں شام آٹھ بجے کے بعد سپاہی مظہر ایک اور اہلکار کے ہمراہ میری دکان پر آیا اور تھانے آنے کو کہا میں نے پوچھا کہ میرا جرم کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ تھانے جا کر بتائیں گے اتنے تک انہوں نے اے ایس آئی بشارت اور دیگر اہلکاروں کو بلا لیا اور وہ گاڑی لے کر پہنچ گئے مجھے اور میرے دوست عمر فاروق کو گاڑی میں ڈال کر تھانے میں لے گئے جاتے ہی ہم دونوں کو الٹا لیٹنے کا حکم دیا اور اوپر سے چھتروں کی برسات کردی یہ سارا تماشا ایس ایچ او اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا یہ للکار کہتے تھے کہ انکی شلواریں اتار کرسرخ مرچیں ڈالو کیونکہ یہ ڈکیتی مان نہیں رہے اتنے تک میرا ایک دوست انعام ہمارا پتہ کرنے آیا تو ان ظالموں نے اس کو بھی بٹھا کر ڈکیتی کے مقدمے میں ملوث کردیا اور ہم تینوں دوستوں پر ڈکیتی کی ایف آئی آر درج کر دی یہ اہلکار جتنا تشدد اور ظلم کر سکتے تھے انہوں نے اتنا کیا اور ہمیں مجبور کرتے کہ تم ڈھڈی موڑ والی ڈکیتیوں میں ملوث ہو لیکن ہم اوصاف کے مشکور ہیں کہ جنہوں نے فورا سوشل میڈیا کے ذریعے بروقت ڈی پی او جہلم تک تشدد ہونے کی اطلاع پہنچا دی پھر انہوں نے تشدد بند کر دیا تاہم ان پولیس اہلکاروں نے ہمارے اوپر بڑا ظلم کیا ہے ہمیں بے گناہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا کوئی مقدمہ مدعی بھی نہ تھا اب ہماراآئی جی پنجاب أر پی او راولپنڈی ،ڈی پی او جہلم اور وزیر اعلی پنجاب سے مطالبہ ہے اس واقع میں ملوث سپاہی مظہر اے ایس آئی بشارت اور دیگر اہلکاروں نے ہم پر بے گناہ تشدد کیا اور ہمارے خلاف ڈکیتی کا جھوٹا م…