اسلام آباد ( اے بی این نیوز )سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ چیف جسٹس اگر پٹیشن نہ سن سکیں تو اختیارات کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟اگر چیف جسٹس کا رول نہ ہو تو سپریم کورٹ بےاختیار ادارہ بن جائے گا ۔ 26ویں ترمیم کا مقصد عدلیہ کو کمزور کرنا تھا، وہ حاصل کر لیا گیا ۔ سپریم کورٹ کو کٹ پتلی ادارہ نہیں بننے دینا چاہیے ۔ بغیر عوامی مینڈیٹ کے حکومت چلانا ملک کیلئے خطرناک ہے۔
دو تہائی اکثریت صرف کاغذی ہے، عوام کا اعتماد حاصل نہیں۔ بار بار آزمائے گئے ہتھکنڈے ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ حکومتیں توڑنے، پارٹیوں پر پابندیاں لگانے سے ملک آگے نہیں بڑھا۔
مشرف دور میں ہائبرڈ ماڈل آزمایا گیا، کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ 27ویں، 28ویں یا 30ویں ترمیم کر لیں، نظام نہیں چلے گا ۔ ملک کے آئینی ادارے کمزور ہو چکے، رول آف لا ختم ہو چکا ہے۔
قیادت کا اصل امتحان چیلنجز کو پہچان کر مشترکہ حل نکالنا ہے ۔ وہ پروگرام اے بی این نیوز سوال سے آگے میں گفتگو کر رہے تھے انہوں نے کہا ہے کہ
شہباز شریف کی حکومت نے سول اتھارٹی کو مکمل سرنڈر کرا دیا ۔ ملک کا نظام ناقابلِ برداشت ہے،عوام غربت میں ڈوب چکے ہیں۔ چار کروڑ افراد بدترین غربت کا شکار، تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ جو حکمران ان حالات میں خود کو کمفرٹیبل سمجھتا ہے، اس کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ عوام کی برداشت جواب دے گئی تو سڑکوں پر نکل آئیں گے، کچھ نہیں بچے گا۔ اپوزیشن کے پاس صوبوں میں حکومت ہے، عوام کو ریلیف کیوں نہیں دے رہے۔
پنجاب، کے پی، سندھ سب کا ایک جیسا حال ہے، کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ سیاسی نظام کا حال یہ ہے کہ عوامی پیسہ خرچ ہو رہا ہے، لیکن جوابدہی کوئی نہیں۔ حکمرانی کا مقصد صرف کرسی بچانا بن چکا ہے، ملک کسی کی ترجیح نہیں۔ ووٹ کی حرمت پامال ہو چکی، عوامی نمائندگی کا تصور ختم ہو گیا ہے۔ 82 فیصد عوام کا نظام پر اعتماد نہیں، یہ لمحہ فکریہ ہے۔ شہباز شریف کا چوہدری نثار سے رابطہ ذاتی دوستی ہے۔
وہ پروگرام اے بی این نیوز سوال سے آگے میں گفتگو کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ
پارلیمان کی موجودہ ساخت عوامی نمائندگی سے خالی اور متنازع ہے۔ دو تہائی اکثریت کاغذی ہے، قانون سازی عوامی ریپریزنٹیشن سے محروم ہے۔ غلط قوانین کے اثرات زائل کرنے میں دہائیاں لگتی ہیں، نیب مثال ہے۔ عدالتیں کیسز کو مؤخر کر رہی ہیں، ججز تاریخ دیے بغیر چیمبر میں چلے جاتے ہیں۔ حکومت نے 4 بجٹ دیے، لیکن اصلاحات کہیں نظر نہیں آئیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط عوام پر لاگو، اخراجات میں حکومتی عیاشیاں جاری۔
ایم این ایز اور وزرا کی تنخواہوں میں 400 سے 1000 فیصد تک اضافہ شرمناک ہے۔ جمہوریت کا وجود کمزور ہو چکا ہے، حل صرف قومی اتفاق اور مذاکرات ہیں۔ پارلیمان کی موجودہ ساخت عوامی نمائندگی سے خالی اور متنازع ہے۔ دو تہائی اکثریت کاغذی ہے، قانون سازی عوامی ریپریزنٹیشن سے محروم ہے۔ غلط قوانین کے اثرات زائل کرنے میں دہائیاں لگتی ہیں، نیب مثال ہے۔
عدالتیں کیسز کو مؤخر کر رہی ہیں، ججز تاریخ دیے بغیر چیمبر میں چلے جاتے ہیں۔
حکومت نے 4 بجٹ دیے، لیکن اصلاحات کہیں نظر نہیں آئیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط عوام پر لاگو، اخراجات میں حکومتی عیاشیاں جاری۔ ایم این ایز اور وزرا کی تنخواہوں میں 400 سے 1000 فیصد تک اضافہ شرمناک ہے۔ جمہوریت کا وجود کمزور ہو چکا ہے، حل صرف قومی اتفاق اور مذاکرات ہیں۔
مزید پڑھیں :ہماری جیتی ہوئی نشستیں مال غنیمت کی طرح بانٹی گئیں ،چیئرمین پی ٹی آئی
The post ملک کا نظام ناقابلِ برداشت ہے،عوام غربت میں ڈوب چکے ہیں ، شاہد خاقان عباسی appeared first on ABN News.