آسٹریلوی حکومت کی جانب سے یہ اعلان گزشتہ دنوں کیا گیا جس کے سبب عارضی ویزوں پر آسٹریلیا میں مقیم غیرملکی طلباء کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کے امکانات ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ملک کی ’10 سالہ مائیگریشن اسٹریٹیجی‘ کی تقریب رونمائی کے موقع پر کیے جانے والے اس اعلان نے غیرملکی طلباء کو تشویش میں مبتلا کردیا۔
اس حوالے سے سڈنی کی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے سینٹر فار میڈیا ٹرانزیشن میں بطور پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ فیلو کام کرنے والی ڈاکٹر عائشہ جہانگیر نے بتایا کہ ابھی پالیسی آئے کچھ روز ہی ہوئے ہیں تو کافی بے یقینی موجود ہے اور لوگ الجھن کا شکار ہیں۔
’انھیں یہ سمجھ نہیں آرہی ہے کہ یہ پالیسی انہیں کس طرح سے متاثر کرسکتی ہے کیا وہ تارکین وطن جن کے ویزے ابھی پراسیسنگ میں ہیں، کیا وہ بھی متاثر ہوں گے؟‘
یاد رہے کہ آسٹریلیا کے ادارہ شماریات کے مطابق گذشتہ ایک سال کے دوران ملک میں آنے والے غیر ملکی تارکین وطن افراد کی تعداد پانچ لاکھ دس ہزار رہی ہے جبکہ کوویڈ19کی پابندیاں لاگو ہونے سے قبل یہ تعداد سالانہ ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہوا کرتی تھی۔
دس سالہ نئی پالیسی کیا ہے؟
آسٹریلیا میں اس وقت لگ بھگ ساڑھے چھ لاکھ غیر ملکی طلبہ مقیم ہیں اور ان میں سے بیشتر پہلے عارضی ویزے (اسٹوڈنٹ ویزا) کی میعاد پوری ہونے کے بعد دوسرے ویزا حاصل کرکے مقیم ہیں۔
نئے منصوبے کے تحت بین الاقوامی طلبہ اور کم ہنر والے ورکرز کے ویزا قواعد کو مزید سخت کیا جائے گا۔ تاہم اب بھی ملک میں ہنر مند ورکرز کی کمی ہے اور ان کی ملک میں آمد کے حوالے سے اب بھی مشکلات موجود ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے موجود ’عارضی سکلز شارٹج‘ ویزا کی جگہ ’سکلز ان ڈیمانڈ‘ ویزا کا اجرا کیا جائے گا۔ اس چار سال پر محیط ویزا کے لیے تین مختلف راستے ہوں گے۔ ایک راستہ ’سپیشلسٹ سکلز‘ رکھنے والے افراد کے لیے ہو گا اور اس کے ذریعے ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں سے منسلک انتہائی باصلاحیت افراد کو آسٹریلیا بلانے کی کوشش کی جائے گی۔
ایک راستہ ’کور اسکلز‘ یعنی بنیادی صلاحیتوں کے حوالے سے ہو گا جس میں شعبوں کی فہرست کو آسٹریلوی مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے اعتبار سے تبدیل کیا جاتا رہے گا۔ لیکن اس راستے سے ورک فورس کی کمی کو پورا کیا جائے گا۔
تیسرا راستہ ’ضروری صلاحیتوں‘ کے حوالے سے ہے یعنی ہیلتھ کیئر جیسے شعبے جہاں ورکرز کی کمی ہے۔ اس کے حوالے سے تفصیلات ابھی زیرِ غور ہیں۔ ان نئے قوانین میں بین الاقوامی طلبہ کے لیے انگریزی زبان کے ٹیسٹ یعنی آئلٹس کے حوالے سے سخت معیار رکھے گئے ہیں۔
آسٹریلیا کے وزیر داخلہ کلیئر او نیل کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی سے آسٹریلیا میں ایسے ہنر مند افراد کو آنے کا موقع ملے گا جن کی ملک کو زیادہ ضرورت ہے، اس کے علاوہ جو لوگ پہلے سے ہی ملک میں رہ رہے ہیں، کام کر رہے ہیں اور پڑھ رہے ہیں ان کے استحصال کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔
خیال رہے کہ آسٹریلیا میں اب نظامِ زندگی گزرانے کے لیے اخراجات میں اضافہ ہوگیا ہے اور کرائے پر رہنے کے لیے مکانات لینا مشکل ہوگئے ہیں اور طلبہ کو کام یا پڑھائی کی جگہ سے خاصا دور رہائش اختیار کرنا پڑتی ہے۔