بدھ کی سہ پہر واشنگٹن میں منعقدہ نیوز بریفنگ میں وائٹ ہاؤس کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے کوآرڈینیٹر برائے اسٹریٹجک کمیونیکیشن جان کربی نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک جیسے کثیر الجہتی ترقیاتی بینکوں کی تشکیل نو اور ان کی صلاحیت میں اضافے کے لیے امریکی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ صدر جو بائیڈن روں ہفتے کے آخر میں نئی دہلی میں جی 20 رہنماؤں کے ساتھ مختلف تجاویز پر تبادلہ خیال کریں گے۔
جان کربی نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ادارے ترقی پذیر ممالک میں شفاف اور اعلیٰ معیار کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے موثر ترین فورم ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی وجہ سے امریکا نے ان اداروں کی صلاحیت میں اضافے کے لیے جاری کوششوں کی حمایت کی ہے تاکہ یہ ادارے آنے والے وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکیں۔
اس دوران جب انہیں یاد دلایا گیا کہ گزشتہ سال اکتوبر میں صدر جو بائیڈن نے کسی موثر نظام کے بغیر جوہری ہتھیاوں کی موجودگی کو وجہ قرار دیتے ہوئے پاکستان کو دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک قرار دیا تھا جان کربی نے وضاحت کی کہ امریکا پاکستان کے بارے میں اتنا فکرمند کیوں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستانی عوام دہشت گردی کے خطرے کا شکار ہیں، خاص طور پر افغانستان کے ساتھ اس کی سرحد کے باعث اور اپنے لوگوں اور اپنی سرحدوں پر سیکیورٹی خطرات سے نمٹنے میں مدد کے لیے ہم پاکستان کے ساتھ اس حد تک کام جاری رکھیں گے جس تک وہ مناسب سمجھے کیونکہ یہ کوئی معمولی خطرہ نہیں ہے۔
پاکستان کو درپیش خطرات کی سنگین صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے جان کربی نے کہا کہ پاکستانی عوام اب بھی بہت زیادہ خطرے میں ہیں، امریکی صدر اس بات کو سمجھتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ کام جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔
انہوں نے اس رائے سے اختلاف کیا کہ امریکا افغانستان میں تقریباً 7 ارب ڈالر مالیت کا اسلحہ اور ساز و سامان چھوڑ گیا اور اب عسکریت پسند گروپ ان ہتھیاروں کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی افواج نے اپنے پیچھے کوئی سامان نہیں چھوڑا، جب ہم نے انخلا کی کوششیں مکمل کیں تو ہوائی اڈے پر بہت کم سامان اور طیارے موجود تھے لیکن جب ہم وہاں سے نکلے تو وہ سب ناقابل استعمال ہو گئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اصل میں ہم نے صرف ایئر پورٹ پر موجود کچھ مکینک چیزیں جیسے ٹو ٹرک، سیڑھی والے ٹرک، اور آگ بجھانے کا کچھ سامان جس سے طالبان کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
جان کربی نے وضاحت کی کہ وہ سامان جس کا کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ امریکیوں نے پیچھے چھوڑا، وہ امریکی انخلا سے قبل افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کے حوالے کیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب طالبان نے ملک بھر میں پیش قدمی کی تو سرکاری افغان فورسز نے وہ سامان چھوڑا، نہ کہ امریکا نے۔
اس سوال پر کہ کیا صدر جو بائیڈن بھارتی رہنماؤں کے ساتھ کشمیر کے مسئلہ پر بھی بات کریں گے جان کربی نے کہا کہ امریکا کی کشمیر پالیسی تبدیل نہیں ہوئی، ہم سمجھتے ہیں کہ وہاں کشیدگی کو فریقین خود ہی حل کر سکتے ہیں۔