عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق 22 سالہ طالبہ لیلیٰ نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مجھ سمیت 30 طالبات کو متحدہ عرب امارات کے ایک تاجر خلف احمد الحبتور نے اعلیٰ تعلیم کے لیے اسپانسر کیا تھا۔
لیلیٰ نے مزید بتایا کہ ہم سب متحدہ عرب امارات روانگی کے لیے ایئرپورٹ گئے لیکن طالبان کے مرد اہلکاروں نے بورڈنگ سے روک دیا۔ ہم نے انھیں اپنے ویزے بھی دکھائے لیکن سب بے سود ثابت ہوا۔
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے لیلیٰ کا مزید کہنا تھا کہ میرا دبئی سے قانون کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کا خواب چکنا چور ہوگیا۔
سوسدی جانب طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے متحدہ عرب امارات جانے سے روکنے پر اسکالرشپ دینے والی کمپنی الحبطور کے بانی چیئرمین نے ٹوئٹر پر طالبان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
بانی چیئرمین ٹوئٹر پر مزید لکھا کہ دبئی یونیورسٹی کے تعاون سے تقریباً 100 خواتین کو وظائف دیے گئے اور الحبطور کے عملے نے مہینوں تک اس پر کام کیا تھا۔ بین الاقوامی ادارے اور عالمی قوتیں طالبات کو تعلیم کی اجازت دلوانے کے لیے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔
ہیومن رائٹس واچ نے بھی طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے سے روکنے پر طالبان کے اقدام کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ لڑکیوں کے لیے تعلیم کے مواقع مسدود کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔
طالبان حکومت نے اس معاملے پر اپنا ردعمل دینے کی اے ایف پی کی درخواست پر فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔
یاد رہے کہ 15 اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان کا اقتدار سنبھالنے کے بعد سے خواتین کی ملازمتوں اور لڑکیوں کی ہائی اسکول اور یونیورسٹی میں تعلیم پر پابندی عائد ہے۔