غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق بحرالکاہل میں کئی دہائیوں کے دوران لگ بھگ 540 اولمپک سوئمنگ پولز کے قابل قدر پانی کے اخراج کا آغاز انتہائی خطرناک قدم ہے۔
پلانٹ آپریٹر ٹیپکو کی طرف سے فراہم کردہ لائیو ویڈیو میں کمپیوٹر اسکرین کے پیچھے انجینئرز اور ایک اہلکار کو یہ کہتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ سمندری پانی کے ٹرانسپورٹ پمپ کے قریب ویلوز کھل رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ایٹمی واچ ڈاگ کے مبصر اس طریقہ کار کے لیے سائٹ پر موجود تھے، جبکہ ٹیپکو کے حکام کو بعد میں پانی کے نمونے لینے تھے۔
وہاں موجود صحافیوں نے بتایا کہ آپریشن سے پہلے، تقریباً 10 افراد نے جائے وقوع کے قریب احتجاج کیا اور 100 کے قریب افراد ٹوکیو میں ٹیپکو ہیڈکوارٹرز کے باہر جمع ہوئے۔
ایک شخص نے کہا ک یہ ایٹم بم کو سمندر میں پھینکنے کے مترادف ہے، جاپان دنیا کا پہلا ملک ہے جس پر ایٹم بم سے حملہ کیا گیا، اور ملک کے وزیر اعظم نے یہ فیصلہ کیا۔
چین کی وزارت ماحولیات نے جاپان کے منصوبے کو انتہائی خود غرض اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے اثرات کا معائنہ اور نگرانی کرے گا۔
تقریباً ایک ہزار اسٹیل کے کنٹینرز میں پانی موجود ہے جہاں ٹیپکو نے کہا کہ اسے انتہائی خطرناک تابکار ایٹمی ایندھن اور تباہ شدہ ری ایکٹرز سے ملبے کو ہٹانے کے لیے جگہ خالی کرنے کی ضرورت ہے۔
شمال مشرقی جاپان میں فوکوشیما ڈائیچی تنصیب کے تین ری ایکٹر 2011 میں ایک بڑے زلزلے اور سونامی کے بعد پگھل گئے تھے جس میں تقریباً 18 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس وقت سے ٹیپکو نے 13 لاکھ 40 ہزار کیوبک میٹر آلودہ پانی جمع کر رکھا ہے۔
ٹیپکو آج سے مارچ 2024 تک ٹریٹڈ پانی کو جاری کرے گا جہاں پہلے اخراج میں تقریباً 17 دن لگیں گے۔
جاپان کا اصرار ہے کہ تمام تابکار عناصر کو فلٹر کر دیا گیا ہے سوائے ٹریٹیم کے اور اس میں بہت سے ماہرین کی حمایت حاصل ہے۔
ماحولیاتی گروپ گرین پیس کا کہنا ہے کہ فلٹریشن کا عمل ناقص ہے، اور چین اور روس نے تجویز کیا ہے کہ پانی کو بخارات بنا کر فضا میں چھوڑا جائے۔
چین نے جاپان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ بحرالکاہل کے ساتھ ایک ’گٹر‘ کی طرح سلوک کر رہا ہے، اور پانی جاری کرنے سے پہلے ہی بیجنگ نے 47 میں سے 10 جاپانی صوبوں سے خوراک کی درآمد پر پابندی لگا دی اور تابکاری کی جانچ پڑتال نافذ کر دی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ چین کو درست حفاظتی خدشات لاحق ہو سکتے ہیں، لیکن اس کا شدید ردعمل بھی کم از کم اس کی اقتصادی دشمنی اور جاپان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے ہے۔
تاہم جنوبی کوریا کی حکومت نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا حالانکہ بہت سے عام لوگ پریشان ہیں اور انہوں نے احتجاج بھی کیا ہے۔
چین اور جنوبی کوریا میں سوشل میڈیا پوسٹس میں پلانٹ سے جاری ہونے والے پانی کے بارے میں جھوٹے دعوے شامل کیے گئے ہیں جن میں متاثرہ مچھلیوں کی تصاویر کے ساتھ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ فوکوشیما سے متاثر ہوئی ہیں۔