0

رضوانہ تشدد کیس؛ سول جج کی اہلیہ کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست مسترد

رضوانہ تشدد کیس میں عدالت نے جج کی اہلیہ ملزمہ سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری مسترد کردی۔
رضوانہ تشدد کیس میں عدالت نے جج کی اہلیہ ملزمہ سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری مسترد کردی۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں اسلام آباد میں کم عمر گھریلو ملازمہ رضوانہ پر تشدد کے معاملے میں ملزمہ سومیہ عاصم کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں جوڈیشل مجسٹریٹ شائستہ کنڈی کے روبرو ملزمہ…

جج نے تفتیشی افسر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ قانونی طور پر پابند ہیں کہ ملزمہ جو دستاویز دے وہ آپ لیں گے۔ پولیس نے عدالت کو بتایا کہ سرگودھا میں چیک اپ کا تمام ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے ۔ پولیس نے ریکارڈ عدالت کے سامنے پیش کر دیا، جس کے بعد عدالت نے متاثرہ بچی کی فیملی کے وکیل کو دلائل دینے کی ہدایت کردی ۔ اس موقع پر پراسیکیوٹر بھی عدالت کے سامنے پیش ہو گئے۔

عدالت نے ملزمہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ بچی کب والدہ کے حوالے ہوئی ؟، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ 23 جولائی کو شام 8 بجے نجی بس اڈے پر والدہ کے حوالے ہوئی ۔ ایف آئی آر کے مطابق یہ بچی صبح 3 بجے اسپتال پہنچ گئی ۔ 10 بجے یہ یہاں سے چلتے ہیں اور 2 بجے سرگودھا پہنچتے ہیں ۔3 بجے جو اسپتال میں چیک اپ ہوا، اس کی ایم ایل سی ریکارڈ پر نہیں ہے ۔ ایف آئی آر میں اس کا ذکر موجود ہے۔

ملزمہ کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ میں نے ایک ویڈیو عدالت کے سامنے پیش کی ۔ اس موقع پر پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ویڈیو میں نظر آرہا ہے کہ بچی زخمی حالت میں والدہ کے حوالے کی گئی ۔ پولیس نے موبائل فون میں ویڈیو عدالت کے سامنے پیش کر دی۔

وکیلِ ملزمہ نے بتایا کہ یہ 3 گھنٹے کی ویڈیو ہمارے پاس موجود ہے عدالت میں پیش کر سکتے ۔ بچی خود دروازہ خود کھولتی ہے، جہاں اڈے پر ان کو اتارا گیا ۔ بچی پوری ویڈیو میں نارمل نظر آرہی ہے ۔ یہ ویڈیو تو اب پورے میڈیا کے پاس موجود ہے ۔ ملزمہ کے وکیل کی جانب سے بھی ویڈیو عدالت کے سامنے پیش کردی گئی۔

دلائل میں ملزمہ کے وکیل نے کہا کہ ڈھائی گھنٹے کی ویڈیو میں بچی بیٹھتی ہے، پانی پیتی ہے ۔ بچی جب والدہ کے حوالے کی گئی تو انہوں نے بچی کو چیک بھی نہیں کیا ، جس پر جج نے استفسار کیا کہ شروع میں والدہ کیسے بچی کو دیکھتی ۔ کیا بچی اسکارف پہنتی ہے ؟، جس پر بچی کی والدہ نے جواب دیا کہ میری بچی اسکارف نہیں پہنتی، یہ چھپانے کے لیے اسکارف پہنایا گیا ۔

وکیلِ ملزمہ نے عدالت کو بتایا کہ ہماری گاڑی میں بچی کی والدہ 10 منٹ بیٹھی رہی ، جس پر جج نے بچی کی والدہ سے استفسار کیا کہ کسی کے ساتھ ظلم زیادتی نہیں کرنی چاہیے، آپ سچ بتائیں۔ بچی کی والدی نے بتایا کہ میری بچی اگلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی تھی، جج کی بیوی نے کہا یہ کام نہیں کرتی ۔ اس کے ڈرائیور نے مجھے دھمکی دی ۔

جج نے ملزمہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ وہ ویڈیو دکھائیں جہاں بچی خود چل رہی ہے۔ ملزمہ کے وکیل نے ایسی کوئی ویڈیو نہیں دکھائی ۔ وکیل نے کہا کہ زخم یہاں سے سرگودھا جاتے ہوئے 6 گھنٹے کے دوران دےی گئے ۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق کس نے زخم دیے؟، جس پر وکیل نے کہا کہ میں یہاں کورٹ میں یہ بات نہیں کرتا نہ کسی پر الزام لگاتا ہوں ۔

جج شائستہ کنڈی نے ریمارکس دیے کہ ویڈیو میں تو بچی کو اٹھا کر بس میں سوار کروایا جارہا ہے ۔ گاڑی سے اترنے کی ویڈیو بھی عدالت کو دکھائیں ۔ وکیل صفائی نے کہا کہ من گھڑت کہانی ڈھائی گھنٹے کی ویڈیو میں سامنے آئے گی ۔

ملزمہ کے وکیل نے کہا کہ 6 گھنٹے 12 منٹ میں سرگودھا کے اندر یہ کہانی بنائی گئی ۔ ڈھائی گھنٹے کی ویڈیو میں متاثرہ بچی کی والدہ فون پر رہتی ہے ۔ اگر بچہ اتنا بیمار ہے تو اس کی والدہ ڈھائی گھنٹے فون پر کیوں رہتی ہے ۔ جج نے ریمارکس دیے کہ پراسیکیوشن سائیڈ کا کہنا درست ہے کہ عدالت اس کیس کو ضمانت کی حد تک سنے گی ۔ جج نے استفسار کیا کہ بچی سیریس زخمی ہے، کس نے اسے زخمی کیا؟

ملزمہ کے وکیل نے جواب دیا کہ 8 جولائی کو جج کے گھر میں یہ بچی مٹی کھاتی ہے، جس میں کھاد ہوتا ہے ۔ کھاد کھانے کی وجہ سے بچی کے جسم پر داغ بن گئے ۔ جج نے استفسار کیا کہ کیا بچی کے متعلق ڈاکٹر نے یہ لکھا ہے ؟، جس پر پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ڈاکٹرز نے یہ نہیں لکھا ۔ ملزمہ کے وکیل نے کہا کہ ڈاکٹرز نے کھاد کو زہر لکھ دیا کہ زہر دیا گیا ۔ ملزمہ کے وکیل نے کہا کہ بچی ہمارے پاس ٹھیک تھی صرف کھاد کھانے کی وجہ سے اسے یہ مسئلہ ہوا ۔

جج نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ دکھا سکتے ہیں، جہاں وہ ٹھیک حالت میں ہے۔ جس پر وکیل نے کہا کہ میں بعد میں دکھا سکتا ہوں۔ جج نے کہا وہ بات نہ کریں جو ثبوت آپ دکھا نہیں سکتے۔ وکیل نےبتایا کہ یہ بچی میرے پاس ملازمہ نہیں تھی۔ 2 روز قبل ملازمہ آئی تھی اس نے کہا تھا وہ بچی کو پیسے دیتی تھی۔ ہم بچی کے والدین کو یسے دیتے رہے ہیں ملازمہ نہیں تھی۔ ہم نے بچی کو پڑھانے لکھانے کے لیےکیئرنگ کے طور پر رکھا ہوا تھا۔

جج نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے بچی کو اسکول میں داخل کرایا ، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ بچی اوور ایج تھی ۔ سول جج عاصم حفیظ کو کال آئی، پیسے مانگے گئے۔ 24 جولائی اور اس کے بعد بھی 50 ہزار ایک دفعہ 60 ہزار ایک دفعہ پیسے بھیجے ۔

جج نے ریمارکس دیے کہ آپ جج ہو کر بلیک میل ہو رہے ہیں ؟۔ آپ نے زخمی نہیں کیا تو پھر پیسے کیوں بھیجے ؟۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا بچی اپنے پاس رکھنے کی کوئی دستاویز ہے۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ایسی دستاویز نہیں ہے ۔ جج نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں صرف ایک ملزمہ کا فیصلہ کرنے بیٹھے ہیں۔ آپ یہ ذہن میں نہ رکھیں کہ وہ کس کی اہلیہ ہے۔

ملزمہ کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرلیے، جس کے بعد عدالت نے رپاسیکیوٹر کو دلائل دینے کی ہدایت کی۔

پراسیکیوٹر نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ متاثرہ بچی رضوانہ کی بازو کی دونوں ہڈیاں ٹوٹی ہوئیں تھیں۔ جب کوئی ڈاکٹر رائے دے تو اس کا مطلب ہے جس دن میڈیکل ہوا ہے اس پر ہے۔ متاثرہ بچی کا بیان 25 جولائی کو ریکارڈ کیا گیا۔ ریکارڈ کے اوپر کچھ تصویریں بھی بچی کی ہیں۔ ملزمہ کے وکیل نے جو ویڈیو دکھائی وہ ہمارے ریکارڈ پر بھی ہے۔ بچی کو جس طرح اٹھا کر بس میں بٹھایا گیا۔ بس کے ڈرائیور کا بیان بھی ریکارڈ پر ہے۔ عدالت نے بس کے ڈرائیور کا بیان پڑھنے کی ہدایت کردی۔

پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل میں کہا کہ ٹیوٹر کا بیان بھی ہے جہاں اس نے کہا ہے کہ اس بچی کو میں نے کبھی نہیں پڑھایا۔ اگر میڈیکل رپورٹ ٹھیک نہیں تو اس کو کسی بورڈ کے سامنے چیلنج کریں گے۔ مٹی کی وجہ سے کیا ہڈیاں بھی ٹوٹ سکتی ہیں؟ یہ پہلی دفعہ سنا ہے۔ زہر سے متعلق تو ہماری رپورٹ میں بھی نہیں ہے انہوں نے خود ہی فرض کر لیا۔ عدالت میں ٹیوٹر کا بیان بھی پڑھا گیا، جس میں کہا گیا کہ میں نے کبھی بچی کو نہیں پڑھایا۔ ملزمہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہمارا مؤقف ہے بچی کام اس طرح نہیں کرتی تھی۔

عدالت نے ملزمہ سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو 2 بجے سنایا جائے گا۔ جج نے ریمارکس دیے کہ عدالت جذبات پر نہیں، انصاف سے فیصلہ کرے گی۔

بعد ازاں رضوانہ تشدد کیس میں عدالت نے فیصلہ جاری کردیا اور ملزمہ سومیہ عاصم کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری مسترد کردی۔

فیصلہ سناتے وقت جج اور ملزمہ کے وکیل کے مابین تلخ کلامی بھی ہوئی۔ عدالت نے کہا آپ کا رویہ درست نہیں، ذاتیات پر نہ اتریں، جس پر ملزمہ کے وکیل نے کہا کہ میں ذاتیات پر بات نہیں کررہا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں