0

سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا کیس، فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ آف پاکستان
فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواستوں کو سننے کے معاملے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک پر مشتمل 6 رکنی لارجر بینچ مذکورہ درخواستوں پر سماعت کرررہا ہے۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیصل صدیقی صاحب نے ملٹری کورٹس کے معاملے پر فل کورٹ کا مطالبہ کیا ہے، ہم جواد ایس خواجہ کے وکیل کو سنیں گے۔

جواد ایس خواجہ کے وکیل نے کہا کہ میرے مؤکل سابق چیف جسٹس ہیں، میرے مؤکل کی ہدایت ہے کہ عدالت میرے ساتھ خصوصی برتاؤ کی بجائے عام شہری کی طرح برتاؤ کرے، وہ چاہتے ہیں کہ ان کے نام کے ساتھ چیف جسٹس نہ لگایا جائے۔

اس پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم اسی وجہ سے ان کی عزت کرتے ہیں، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ گوشہ نشین انسان ہیں، ان کی آئینی درخواست غیر سیاسی ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا فیصل صدیقی صاحب چھپ رہے ہیں؟ وکیل شاہ فیصل نے بتایا کہ فیصل صدیقی کمرہ عدالت سے باہر ہیں، کچھ دیر میں آتے ہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ ’پک اینڈ چوز‘ کرنے کی قانون اجازت نہیں دیتا، اگر انکوائری ہوئی تو ریکارڈ پر کیوں نہیں؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’پک اینڈ چوز‘ نہیں کیا، بہت احتیاط برتی گئی، جو لوگ براہ راست ملوث تھے انہیں ہی ملٹری کورٹس بھیجا گیا، کور کمانڈر ہاوس میں جو لوگ داخل ہوئے انہیں ملٹری کورٹس بجھا گیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی فورم پر مواد ہوگا تو پتا چلے گا کہ آپ کا دعویٰ درست ہے یا نہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کا سوال ہے کہ دیگر افراد کو کیوں چھوڑا، بہت سے لوگ ملوث تھے لیکن شوائد کی روشنی میں افراد کو گرفتار کیا گیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ اگر کوئی انکوائری ہوئی ہے تو ریکارڈ پر کیوں نہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ انکوائری پر موجود ہے سر۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ صرف ان افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جنہوں نے فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کور کمانڈر ہاؤس کو نقصان پہنچانے والوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے فوج کی تحویل میں موجود 9 مئی واقعات میں ملوث 102 ملزمان کی فہرست عدالت میں پیش کردی۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ زیر حراست 7 ملزمان جی ایچ کیو حملے میں ملوث ہیں، 4 ملزمان نے آرمی انسٹی ٹیوٹ پر حملہ کیا، 28 ملزمان نے کور کمانڈر ہاوس لاہور میں حملہ کیا، 5 ملزمان ملتان، 10 ملزمان گوجرانوالہ گریژن حملے میں ملوث ہیں، 8 ملزمان آئی ایس آئی آفس فیصل آباد، 5 ملزمان پی ایف بیس میانوالی حملے میں ملوث ہیں، 14 ملزمان چکدرہ حملے میں ملوث ہیں، 7 ملزمان نے پنجاب رجمنٹ سینٹر مردان میں حملہ کیا، 3 ملزمان ایبٹ آباد، 10 ملزمان بنوں گریژن حملے میں ملوث ہیں، ایک ملزم آئی ایس آئی حمزہ کیمپ حملے میں ملوث ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ زیر حراست ملزمان کی گرفتاری سی سی ٹی وی کمیرے اوردیگر شواہد کی بنیاد پر کی گئی، فوجی ٹرائل کا سامنا کرنے والے زیر حراست افراد سے متعلق رپورٹ جمع کروا دی ہے، تحریری جواب میں پورا چارٹ ہے کہ کتنی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، صرف 102 افراد کو گرفتار کیا گیا، بہت احتیاط برتی ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یعنی حکومت ان 102 افراد کا حکومت کورٹ مارشل کرنا چاہتی ہے؟

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ افراد کی گرفتاری کے لیے کیا طریقہ کار اپنایا گیا ہے، اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہم سی سی ٹی وی فوٹیج اور شوائد کی روشنی میں افراد کو حراست میں لیا، کور کمانڈر ہاؤس لاہور میں داخل ہونے والے افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ مجسٹریٹ کے آرڈ میں ملزمان کو ملٹری کورٹس بھجینے کی وجویات کا ذکر نہیں ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ بظاہر لگتا ہے ملزمان کے خلاف مواد کے نام پر صرف فوٹو گراف ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ ایسا لگتا آپ ان سوالات پر پوری طرح تیار نہیں، ہمارے سامنے ابھی وہ معاملہ ہے بھی نہیں، ہم نے معاملے کی ائینی حیشت کو دیکھنا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ وکیل فیصل صدیقی نے ایک درخواست اپنے مؤکل کی طرف سے فل کورٹ کی دی ہے، ہم پہلے فیصل صدیقی کو سن لیتے ہیں۔

خیال رہے کہ رواں سال 9 مئی کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو پیراملٹری فورس رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کیا جس کے بعد ملک بھر میں ہوئے پر تشدد احتجاج کے دوران املاک کی توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤ دیکھنے میں آیا۔

احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے فوجی تنصیبات، بشمول کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ اور پاکستان بھر میں ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔

اس واقعے کے بعد، فوج نے اس دن کو ملکی تاریخ کا ایک ’سیاہ باب‘ قرار دیا تھا اور توڑ پھوڑ میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا تھا۔

بعد میں مزید سخت قدم اٹھاتے ہوئے حکومت نے سول اور فوجی تنصیبات پر حملے اور آتش زنی کرنے والوں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا۔

اس فیصلے کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی توثیق کی تھی، جو کہ قومی سلامتی کے امور کے لیے ملک کا اعلیٰ ترین فورم برائے رابطہ کاری ہے۔

بعد ازاں 20 مئی کو آرمی چیف نے کہا کہ مئی کے سانحے میں ملوث منصوبہ سازوں، اکسانے والوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور مجرموں کے خلاف مقدمے کا قانونی عمل آئین سے ماخوذ موجودہ اور قائم شدہ قانونی طریقہ کار کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت شروع ہو گیا ہے۔

اس کے بعد فوج اور حکومت نے شہدا کی قربانیوں کو یاد کرنے اور ان کے خاندانوں کو عزت دینے کے لیے 25 مئی کو ’یوم تکریم شہدا‘ منانے کا فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں ملک بھر میں قائم یادگار شہدا پر متعدد یادگاری تقریبات کا انعقاد کیا گیا۔

خیال رہے کہ 26 مئی کو ایک نیوز کانفرنس میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ 9 مئی سے متعلق صرف 6 مقدمات میں 33 ملزمان کو فوجی حکام کے حوالے کیا گیا ہے۔

گزشتہ دنوں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ فوج کے قوانین کے تحت مقدمات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں جو کہ منصفانہ ٹرائل کی بنیاد ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں