0

ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل کیخلاف کیس کی سماعت شروع

بینچ میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کا 6 رکنی بینچ فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت کررہا ہے۔ بینچ میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری کا کہنا ہے کہ میں نے بھی اس کیس میں درخوست دائر کردی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خوشی ہے سپریم کورٹ بار بھی اس کیس میں فریق بن رہی، اچھے دلائل کو ویلکم کریں گے۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے پوچھا کہ آپ آج اس وقت درخواست دائر کر رہے ہیں؟۔ جس پر عابد زبیری نے بتایا کہ درخواست ابھی آفس میں دائر ہوگئی ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل کہا ہے کہ ٹرائل جاری ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اٹارنی جنرل کے بیان سے متصادم ہے۔

اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے کہا کہ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں، ابھی تک کسی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے۔

عزیز بھنڈاری کا کہنا تھا کہ واضح کرنا چاہتا ہوں میرے دلائل صرف سویلین کے ٹرائل کی حد تک ہوں گے، فوجیوں کے ٹراٸل پر عدالتی اختیارات سے متعلق بات نہیں کروں گا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل عثمان منصور کو روسٹرم پر بلا کر کہا کہ ملٹری کورٹس بھیجے گئے ملزمان پر سیکشن 2 ڈی ون لگی ہے یا 2 ڈی ٹو؟، کل کے بعد اس معاملے کی وضاحت ضروری ہوگئی ہے۔

عثمان منصور کا کہنا ہے کہ آج تک تو سیکشن 2 ڈی ٹو ہی کا اطلاق ہوا ہے، سیکشن 2 ڈی ون کا اطلاق بعد میں ہوسکتا ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی فیصلے سویلین کے فورسز کے اندر تعلق سے متعلق کچھ ٹیسٹ اپلائی کرتے ہیں، کیسے تعین ہوگا کہ ملزمان کا عام عدالتوں میں ٹرائل ہوگا یا ملٹری کورٹس میں؟۔

جسٹس عائشہ ملک نے مزید کہا کہ ایف بی ایل ای کیس کہتا ہے کہ کچھ سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوسکتا ہے، یہ کیس سویلین کے اندر تعلق کی بات کرتا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مطابق یہ کون سا تعلق ہوگا جس پر ٹرائل ہوگا۔

عزیز بھنڈاری ایڈووکیٹ نے کہا کہ جو کچھ بھی ہوگا وہ آئینی ترمیم سے ہی ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہنا ہے کہ ہم ہوا میں بات کررہے ہیں، سیکشن 2 ڈی ٹو کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں، اس سیکشن پر آپ نے عدالت کی معاونت کرنی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایمرجنسی اور جنگ کی صورت میں تو ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوسکتا ہے۔ عزیز بھنڈاری نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کا اکثریتی فیصلہ بھی جنگی حالات کی شرط عائد کرتا ہے، آئین کا آرٹیکل 175 تھری جوڈیشل اسٹرکچر کی بات کرتا ہے، آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام آرٹیکل بھلے الگ الگ ہیں مگر آپس میں ان کا تعلق بنتا ہے، بنیادی حقوق کا تقاضا ہے کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت تعینات جج ہی ٹرائل کرے، سویلین کا کورٹ مارشل عدالتی نظام سے متعلق اچھا تاثر نہیں چھوڑتا، کسی نے بھی خوشی کے ساتھ اس کی اجازت نہیں دی۔

عزیز بھنڈاری کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے ملک میں بے چینی کی کیفیت ہوگی، ایف آئی آر میں کہیں بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہیں کیا گیا، فوج کی خدمات تو مختلف چیزوں میں لی جاتی ہے، اگر وہاں کچھ ہوجائے تو کیا آرمی ایکٹ لگ جائے گا؟۔

عزیر بھنڈاری ایڈووکیٹ نے آرمی ایکٹ کا سیکشن ٹو ڈی عدالت میں پڑھ کر سنایا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جب آپ آرمی کی بات کرتے ہیں تو اس کی سب سے اہم چیز مورال ہوتی ہے، اگر مورال متاثر ہوتا ہے تو اس کا فائدہ بھی دشمن کو ہوگا، اگر کوئی چیز ایک فوجی کا مورال کم کرے تو فائدہ دشمن کو ہوتا ہے۔

فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت میں ساڑھے 11 بجے تک کا وقفہ کردیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز ملٹری کورٹس کی سماعت کرنیوالا بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا تھا، جسٹس منصورت علی شاہ نے حکومت کے اعتراض کے بعد خود کو بینچ سے الگ کرلیا تھا۔ انہوں نے تحریری فیصلے میں اپنے علیحدہ نوٹ مین لکھا کہ انصاف کی فراہمی کی غیر جانبداری مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ہونی چاہئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں