0

توقع ہے سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے تک ملٹری کورٹس میں ٹرائل شروع نہیں ہوگا: چیف جسٹس

6 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔
فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے بینچ پر اعتراض اٹھا دیا جس کے بعد کیس کی سماعت کرنے والا 7 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا اور 6 رکنی بینچ نے سماعت کا سلسلہ آگے بڑھایا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت ریمارکس دیےکہ توقع ہے سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہونے تک فوجی عدالتیں ٹرائل شروع نہیں کریں گی۔

چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستوں پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے 9 رکنی بینچ نے 22 جون کو سماعت کا آغاز کیا تھا، تاہم دورانِ سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود کے اعتراضات کے بعد 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد 7 رکنی بینچ نے سماعت کا دوبارہ آغاز کیا تھا۔

مذکورہ درخواستوں پر آج سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے اور وفاقی حکومت کی جانب سے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھادیا، جسٹس منصور علی شاہ کے 7 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد سپریم کورٹ کا 6 رکنی بینچ سماعت کی۔

6 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔

سماعت کے آغاز پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہماری درخواست پر نمبر نہیں لگا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس معاملے ہر بعد میں آئیں گے، ابھی ہم ایک سیٹ بیک سے ریکور کر کے آرہے ہیں۔

چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے مزید ریمارکس دیے کہ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں، آپ نے درخواست میں بھی مختلف استدعائیں کر رکھی ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ ہماری درخواست پر ابھی تک نمبر نہیں لگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے پر بعد میں آئیں گے، ابھی ہم ایک سیٹ بیک سے ریکور کرکے آرہے ہیں۔

چیف جسٹس نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان سے مکالمے میں مزید کہا کہ یہاں دلائل کے بجائے دیگر حربے آزمائے جا رہے ہیں، آپ نے درخواست میں بھی مختلف استدعا کر رکھی ہیں۔ جس پر حامد خان نے کہا کہ میں ان میں سے صرف فوجی عدالتوں والی استدعا پر فوکس کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔

درخواست گزار جنید رزاق کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوءے کہا کہ میرے مؤکل کے بیٹے کا معاملہ فوجی عدلتوں میں ہے، ٹرائل صرف آرٹیکل 175 کے تحت تعینات کیا گیا جج کرسکتا ہے، ایف پی ایل ای کیس کا جب فیصلہ ہوا تب اختیارات کی تقسیم کا اصول واضح نہیں تھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ ایف پی ایل ای اس کیس سے کیسے متعلقہ ہے، ایف پی ایل ای کیس تو ریٹائرڈ فوجی افسران کے ٹرائل پر تھا۔ جسٹس منیر اختر نے کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک فوجی افسر کا بھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل یا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا؟۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ اگر ٹرائل سے میرے آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے تو پھر خصوصی عدالت میں کیس چل سکتا ہے، بینکنگ کورٹ یا اے ٹی سی جیسی خصوصی عدالتوں میں آئینی حقوق متاثر نہیں ہوتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ابھی کسی کا ٹرائل شروع ہوا ہے۔ جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ابھی کسی کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ آپ پھر مفروضوں پر بات نہ کریں کہ ٹرائل ہوگا تو یوں ہوگا، ایسے تو کل فوجی افسران کے ٹرائل پر بھی بات کی جائے گی، ہمارے پاس کل آخری ورکنگ ڈے ہے متعلقہ بات ہی کریں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پر آپ کا اعتراض 175 تھری کی حد تک ہے؟، یہ جاننا اب ضروری ہے کہ آپ کی سیکشن 2 ڈی پر کیا انڈر اسٹینڈنگ ہے؟، ایف پی ایل ای کیس میں تو ریٹائرڈ فوجیوں کا فوج کے اندر تعلق کا معاملہ تھا، کیا سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے؟، آپ کی کیا دلیل ہے، آپ نے ایکٹ کی شقیں چیلنج کی ہیں اس کی بنیاد کیا ہے؟۔

سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ آرٹیکل 175 تین کے تحت جوڈیشل اختیارات کوئی اور استعمال نہیں کرسکتا، سپریم کورٹ خود ایک کیس میں طے کرچکی ہے کہ عدالتی معاملات عدلیہ ہی چلا سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فوجی عدالتوں سے متعلق متعدد فیصلے موجود ہیں، کیا آپ فوجی عدالتوں میں فوجیوں کے ٹرائل پر بھی جانا چاہتے ہیں، ہم بہت سادہ لوگ ہیں ہمیں آسان الفاظ میں سمجھائیں، آپ جو باتیں کر رہے ہیں وہ ہاورڈ یونیورسٹی میں جا کر کریں۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی حد تک ہی بات کر رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تو ہمیں یہ ہی بتائیں کہ کیا سویلین کو بنیادی حقوق سے محروم کیا جاسکتا ہے؟۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ صرف کسی پر ایک الزام لگا کر فیئر ٹرائل سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ سویلینز کی بھی دو اقسام ہیں، ایک وہ سویلین جو آرمڈ فورسز کو سروسز فراہم کرتے ہیں، فورسز کو سروسز دینے والے سویلین فوجی ڈسپلن کے پابند ہیں، دوسرے سویلینز وہ جن کا فورسز سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں، دوسری قسم کے سویلینز کا ٹرائل 175 تین کے تحت تعینات جج ہی کرے گا۔

جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ ہم ملٹری کورٹس کو کیسے کہیں کہ وہ عدالتیں نہیں ہیں؟۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا ک کئی عدالتیں اور ٹریبونل ہیں جن کا آرٹیکل 175 تین سے تعلق نہیں۔ چیف جسٹس نے ریامرکس دیئے کہ کیا ملٹری کورٹس کے فیصلے کہیں چیلنج نہیں ہوسکتے؟۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فیصلے آرمی چیف یا ان کی بنائی کمیٹی کے سامنے چیلنج ہوسکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کورٹس میں اپیل کا دائرہ وسیع ہونا چاہئے، یہ کہنا کہ ملٹری کورٹس ڈسٹرکٹ کورٹ کی طرح ہو تو کیس کا دائرہ کار وسیع کردے گا، ہم آسٹریلیا یا جرمنی کی مثالوں پر نہیں چل سکتے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملٹری کورٹ متوازی نظام ہے، عدالت نہیں کہہ سکتے؟۔ جس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ جی میں یہی کہہ رہا ہوں کیونکہ وہاں سویلین کو بنیادی حقوق نہیں ملتے، آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ٹرائل ہوتا ہے، سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ڈسپلن کی خلاف ورزی کا معاملہ نہیں۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ یہ ایک اچھا پوائنٹ ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا ہے کہ آپ سویلین کی حد تک ہی ٹرائل چیلنج کر رہے ہیں نا؟، آپ فوجیوں کے ٹرائل تو چیلنج نہیں کررہے؟۔ جس پر سلمان اکرم راجہ کا جواب تھا کہ نہیں میں فوجیوں کے ٹرائل چیلنج نہیں کر رہا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں ایمرجنسی یا بنیادی حقوق معطل ہوں تو کیا پھر سویلینز کا ٹرائل ہوسکتا ہے؟۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ امریکی قانون اس پر بڑا واضح ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ امریکا میں جو سویلین ریاست کیخلاف ہو جائیں ان کا ٹرائل کہاں ہوتا ہے؟، فیصل صدیقی نے کہا تھا کہ دنیا میں فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل ہوتا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا ہمارے خطے میں سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے؟۔ سلمان اکرم نے جواب دیا کہ بھارت میں ایسا نہیں ہوتا۔

جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا تھا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ دیکھیں، مسلح افواج پر ہتھیار اٹھانے والوں پر آرمی ایکٹ کے نفاذ کا ذکر ہے۔

سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرمی ایکٹ کا سیکشن 2 ڈی کے تحت سویلین کا ٹرائل نہیں ہوسکتا، میرے مؤکل جنید رزاق کو اٹھا لیا گیا، جنید رزاق کے بیٹے ارزم رزاق کو ایک الزام لگا کر اٹھایا گیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل میں کہا کہ ہم تمام درخواست گزاروں کو سپورٹ کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں اوپن ٹرائل ہو، اگر کوئی قصور وار ہے تو اسے سزا ملنی چاہئے، 9 مئی کے واقعات کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے اہداف اور خواہشات کے حصول کی بات نہ کریں، آپ صرف قانون کی بات کریں۔

عدالت عظمیٰ کیس کی سماعت کل (منگل کو) صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔

اس سے قبل سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ کے سامنے ملٹری کورٹس میں سویلنز کے ٹرائل کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔

 

اپنا تبصرہ بھیجیں