0

بیوروکریسی اور ایلیٹ نے اس ملک کا معاشی نظام منجمد کردیا ہے: خواجہ آصف

خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عدلیہ، بیوروکریسی اور ایلیٹ نے اس ملک کا معاشی نظام منجمد کردیا ہے ۔ یہاں امیر کے لیے کوئی قانون نہیں اور عام آدمی کو جیل میں ڈال دیاجا تا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اربوں روپے لے کر لندن چلے گئے۔

قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ ملک کی 80 فیصد آبادی 2 وقت کا کھانا نہیں کھاسکتی۔ یہاں امیر کے لیے کوئی قانون نہیں اور عام آدمی کو جیل میں ڈال دیاجا تا ہے۔ امیر کےلیے قانون میں ترامیم کردی جاتی ہیں۔

خواجہ آصف نے کہا کہ کمپنیاں 500 ارب کا ٹیکس چوری کر رہی ہیں۔ جب تک کڑوی گولی کھا کر ان مسائل کا علاج نہیں کریں گے، یہ ٹھیک نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایسے ایسے لوگ ہیں جن کا ٹی وی چینلز پر نام نہیں لے سکتے۔ ڈاکو اس ملک میں قوم کو تعلیم دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ میں 500 ارب روپے کی ٹیکس چوری، چائے درآمد کرنے میں 45 ارب کی ٹیکس چوری ہوتی ہے۔ جس ملک میں ہزاروں ارب روپے کی چوری ہو، وہاں بجٹ کیسا پیش ہوگا؟۔ہمیں اس ٹیکس چوری کا مستقل حل تلاش کرنا ہو گا۔ نئے مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مشکل معاشی حالات میں عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی۔ اسحاق ڈار نے بجٹ میں ناممکن کو ممکن بنانے کی کوشش کی ہے۔

وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ کون سا ادارہ ہے جس کو زنک یا دیمک نہیں لگی؟ ہمارے بجٹ کی کل آمدن سے زیادہ تو ہم پر سود ہے۔ ہماری 2 وزارتیں ایک ہزار ارب روپے خسارہ کررہی ہیں ۔190 ملین روپے کی چوری میں ایک رئیل اسٹیٹ مالک کا نام ٹی وی پر نہیں لیا جاسکتا ۔ تمباکو کی 2 بڑی کمپنیاں 240ارب روپے ٹیکس چوری کررہی ہیں ۔ تمباکو والی ان 2 کمپنیوں کے نمائندے اس پارلیمنٹ میں موجود ہیں ۔ موبل آئل میں 65ارب روپے کی چوری ہے ۔ جی ایس ٹی وغیرہ 2880ارب روپے کی چوری ہے ۔ یارن میں 250 ارب روپے کی چوری ہے۔

انہوں نے کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر ایک بہت بڑا سکینڈل پیدا ہورہا ہے ۔ غربت ختم کرنے کے نام پر آنے والے وہ لوگ ہیں جو خود پہلے خود اربوں روپے بناتے ہیں ۔ یونیورسٹیوں کا طبقہ ہے جن کے وائس چانسلرز کرپشن کر کے ارب پتی بن گئے ہیں ۔ وزیر دفاع نے کہا کہ عدلیہ اس سارے جرم کے نظام میں ملوث ہے ۔ عدلیہ میں ٹیکس کے 1300ارب روپے کے مقدمات پر حکم امتناعی پڑے ہیں ۔ یہاں عام آدمی کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ عام آدمی 2 ہزار روپے جرمانہ ادا نہ کرنے پر برسوں جیل پڑا رہتا ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ایک چیف جسٹس کی جتنی تنخواہ ہے، اس کا چوتھائی ہی ہمیں لینے دیا جائے ۔ یہ عدلیہ تین تین وزرائے اعظم کھا گئی ڈکار بھی نہیں ماری۔ آج بھی ہمارے سر پر بادل منڈلا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف قرض دے گا بھی یا نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں