0

عمران خان کی گرفتاری قانونی ہے یا نہیں، اسلام آباد ہائِکورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

 اسلام آباد ہائِکورٹ
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری قانونی ہے یا نہیں اسلام آباد ہائِکورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مناسب فیصلہ جاری کریں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی توڈی جی نیب عرفان بیگ اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر پیش ہوئے۔

چیف جسٹس جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ نیب عمومی طور پر وارنٹس پر عمل کیسے کرتا ہے؟ جواب میں سردار مظفر نے کہا ہم نے وزارت داخلہ سے کہا تھا کہ وارنٹ پرعمل کرائیں۔

چیف جسٹس سوال کیا کہ کیا جب گرفتاری ہوئی تو نیب کا کوئی افسر موجود تھا؟ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے بتایا کہ تفتیشی ندیم باہر بیلا روڈ پر موجود تھا،چیف جسٹس نے کہا کہ وکلاء سے بدسلوکی ہوئی اور یہ سب اس کمپاؤنڈ میں ہوا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کہ اس کمپاؤنڈ سے کی گئی گرفتاری مؤثر رہ سکتی ہے؟ جس کے جواب میں سردارمظفر نےکہا گرفتاری کے لئے تمام تر طریقے اپنائے جاسکتے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ میرا سوال اس وقت یہ ہے کیا گرفتاری قانونی ہے یا نہیں؟ کیا نیب ہر کیس میں ایسا ہی کرتی ہے جیسے آج کیا؟ پہلے آپ نے سپریم کورٹ میں ایک کیس میں ایسا کیا تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ، کیا عدالتوں کے ساتھ بھی ایسا کیا جاسکتا ہے؟ جواب میں خواجہ حارث نے کہا کہ اس کیس میں عدالت نے ملزمان کو فری کردیا تھا، جبکہ سردار مظفر نے کہا کہ گرفتاری پاکستان میں کسی بھی جگہ سے ہوسکتی ہے،قانون کے مطابق گرفتاری کے وقت کھڑکی دروازہ بھی توڑا جاسکتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ مگر عدالتوں کو تو سمجھا جاتا تھا کہ ان کا ایک وقار ہے۔

خواجہ حارث نے نیب کے ساتھ خط و کتابت کا ریکارڈ پیش کیا اور کہا کہ نیب سے پوچھیں انکوائری انوسٹی گیشن میں کب بدلی؟ خواجہ حارث نے کہا کہ نیب پابند تھا کہ ہمیں انکوائری رپورٹ فراہم کرتا،نیب کو لکھا کہ آپ نے سیکشن 18 کے تحت انکوائری رپورٹ دینی ہے،نیب کی ایسی بدنیتی پہلے کبھی سامنے نہیں آئی۔

دریں اثنا صدر ہائیکورٹ بار نوید ملک عدالت میں پیش ہوگئے، انہوں نے کہا کہ آج اسلام آباد ہائیکورٹ پر حملہ کیا گیا ہے،وکلاء کو ایسے مارا گیا جیسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔

چیف جسٹس عامر فارق نے کہا کہ نیب ترامیم آئی تو اسی لئے تھیں ناں کہ تحفظ دیا جاسکے،آپ نے اگرچہ نیب کی یہ ترامیم چیلنج بھی کررکھی ہیں، کیا یہ ترامیم پھر ساری اچھی ہیں؟

خواجہ حارث نے کہا کہ ہمیں خدشہ تھا نیب کچھ ایسا کرنے جارہا ہے،اسی لئے ہم انکوائری رپورٹ لینے کی آج درخواست دائر کررہے تھے،القادر کیس میں ضمانت کی درخواست بھی دائر کی جارہی تھی،عمران خان بائیومیٹرک کرارہے تھے جب گرفتار ہوئے، انصاف تک رسائی کے اصول کی خلاف ورزی کی گئی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فارو ق نے کیس کافیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ عمران خان کی گرفتاری قانونی ہے یا نہیں، مناسب حکم جاری کریں گے۔

اس سے قبل چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ ڈی جی نیب راولپنڈی اور پراسیکیوٹر جنرل آدھے گھنٹے میں عدالت میں پیش ہوں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری پر 15 منٹ میں جواب مانگا تھا 45 منٹ گزر گئے، سیکریٹری داخلہ کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب کیا وفاقی کابینہ کو بلاؤں۔ آئی جی اسلام آباد عدالت عالیہ میں پیش ہوگئے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے آئی جی اسلام آباد کو 15 منٹ میں طلب کرلیا۔

دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو آئی جی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوگئے، جنہوں نے بتایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے گرفتار کیا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سیکریٹری داخلہ کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 15 منٹ میں جواب مانگا تھا 45 منٹ ہوگئے، کیا وفاقی کابینہ کو بلاؤں۔

خیال رہے کہ اب سے کچھ دیر قبل نیب نے القادر ٹرسٹ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کرلیا۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق عمران خان کو لیگل وارنٹ دکھا کر گرفتار کیا گیا، عمران خان کے ساتھ سیکیورٹی اہلکاروں نے کوئی بدتمیزی نہیں کی۔ چیئرمین نیب نے یکم مئی کو عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے۔

دوسری جانب آئی جی اسلام آباد نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسلام آباد میں دفعہ 144نافذ ہے،حالات معمول کے مطابق ہیں۔ خلاف ورزی کی صورت میں کارروائی ہوگی۔