’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق ڈونیٹسک میں تقریباً 70 ہزار افراد پر مشتمل ایک قصبے کے مرکز میں پروجیکٹائلز داغے گئے، اس حملے سے محض چند گھنٹے قبل امریکی اعلیٰ سفارت کار نئی جنگی امداد کا اعلان کرنے کے لیے کیف پہنچے تھے۔
دریں اثنا یوکرین کے نئے مقرر کردہ وزیر دفاع نے اپنے پہلے بیان میں روس کے زیر قبضہ علاقے کے ’ہر سینٹی میٹر‘ کو آزاد کرانے کا عزم ظاہر کیا۔
حکام کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر کے مطابق امدادی کارکنوں نے ملبے میں سے کچھ زخمیوں کو باہر نکالا اور علاج کے لیے لے گئے۔
وزیر داخلہ ایگور کلیمینکو نے ریسکیو آپریشن ختم ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ روسی گولہ باری کے نتیجے میں 17 افراد ہلاک اور 32 لوگ زخمی ہوئے۔
یوکرینی وزیر اعظم ڈینس شمیگل نے کہا کہ فرنٹ لائن سے تقریباً 20 کلومیٹر دور ہونے والے اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں ایک بچہ بھی شامل ہے۔
ولادیمیر زیلنسکی نے اس حملے کو گھناؤنی حرکت، ڈھٹائی اور سراسر غیر انسانی عمل قرار دیتے ہوئے روس پر جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ جائے وقوع کے قریب کوئی فوجی یونٹ موجود نہیں ہے۔
یہ حملہ ایسے وقت ہوا جب امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن یوکرین کے دورے پر پہنچے ہیں کیونکہ امریکا، روس کے خلاف جنگ کے لیے ایک ارب ڈالر سے زائد کی مزید جنگی امداد جاری کر رہا ہے۔