0

الیکشن2024 کیلئے تمام تیاریاں مکمل،پولنگ چندگھنٹوں بعد شروع ہوجائیگی

اسلام آباد(اے بی این نیوز)پاکستان میں عام انتخابات کے لیے پولنگ آج ہو گی، ووٹرز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 855 حلقوں میں امیدواروں کا انتخاب کرینگے۔انتخابات میں قومی اسمبلی کے 266 حلقوں میں اوسطاً 19 امیدوار فی حلقہ حصہ لے رہے ہیں۔جن میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 255 جو بلوچستان کے ضلع جعفر آباد، اوستہ محمد اور نصیر آباد پر مشتمل ہے، سے سب سے زیادہ 46 امیدوار مدمقابل ہیں جبکہ خیبر پختونخوا کے تین حلقوں این 8، این اے 10 اور این اے 14 سے سب سے کم آٹھ، آٹھ امیدوار مدمقابل ہیں۔ قومی اسمبلی کے 266 حلقوں میں پانچ حلقے ایسے ہیں جہاں 40 یا اس سے زائد امیدوار انتخابی عمل میں حصہ لے رہے ہیں۔

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 255 جعفر آباد بلوچستان سے سب سے زیادہ 46 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔

فیصل آباد کے حلقہ این اے 103 دوسرے نمبر ہے جہاں سے 45 امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ اسلام آباد کے حلقہ این اے 46 سے 44 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔

این اے 102 فیصل آباد اور این 219 کراچی سے 40، 40 امیدوار قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کے حلقہ این اے 41 سے 39، اسلام آباد کے حلقہ این اے 48 سے، کراچی کے حلقہ این اے 232 اور 241 سے 38،38 امیدوار انتخابی معرکہ سر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔س کے برعکس قومی اسمبلی کے سات حلقے ایسے ہیں جہاں پر امیدواروں کی تعداد 10 سے بھی کم ہے۔

بونیر کے حلقہ این اے 8 اور این اے 10 اور این اے 14 مانسہرہ سے آٹھ، آٹھ امیدوار ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔
سوات کے حلقہ این اے 2، سندھ کے حلقوں این اے 194، این اے 195، اور این اے 199 سے 9، 9 امیدوار میدان میں ہیں۔

این اے 154 لودھراں اور این اے 178 مظفر گڑھ سے 10،10 امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

ملک میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 12 کروڑ، 69 لاکھ 80 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ 2018 میں 10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409 ووٹرز رجسٹرڈ تھے۔خواتین ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 84 لاکھ 72 ہزار 14 ہے جبکہ مرد ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 85 لاکھ 8 ہزار258 ہے۔ پنجاب میں

ووٹرز کی تعداد 7 کروڑ 23 لاکھ 10 ہزار 582 ہے اور سندھ میں ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 66 لاکھ 51 ہزار 161 ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق خیبر پختونخوا میں ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 16 لاکھ 92 ہزار 381 ہے، بلوچستان میں ووٹرز کی تعداد 52 لاکھ 84 ہزار 594 ہے، اسلام آباد میں ووٹرز کی تعداد 10 لاکھ 41 ہزار 554 ہے۔ مرد ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 85 لاکھ 8 ہزار258 ہے۔ملک میں 18 سے 35 سال عمر کے ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 70 لاکھ 95 ہزار 197 ہے۔ 36 سے 45 سال کے ووٹرز کی کل تعداد 2 کروڑ 77 لاکھ 94 ہزار 708 ہے۔

46 سے 55 سال عمر کے ووٹرز کی تعداد 1 کروڑ 81 لاکھ 24 ہزار 28 ہے۔ 56 سے 65 سال کے ووٹرز کی مجموعی تعداد 1 کروڑ 18 لاکھ 89 ہزار 259 ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں 66 سال سے زائد عمر والے ووٹرز کی تعداد 1 کروڑ 20 لاکھ 77 ہزار 80 ہے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان میں عام انتخابات کے لیے پولنگ آج ہو گی،

ووٹ اصل قومی شناختی کارڈ پر ہی ڈالا جا سکے گا جبکہ ووٹ ڈالنے کے لیے زائد المیعاد قومی شناختی کارڈ بھی قابل قبول ہوں گے۔

پولنگ کا وقت :

پولنگ صبح 8 سے بغیر کسی وقفے کے شام 5 بجے تک جاری رہے گی اور حلقے کا غیر حتمی غیر سرکاری نتیجہ ریٹرننگ افسر کے دفاتر سے جاری ہو گا، پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج پولنگ ختم ہونے کے ایک گھنٹے بعد جاری کیے جاسکیں گے۔

مزیدپڑھیں:چیف الیکشن کمشنرکے چیف سیکرٹریزسے رابطے

حساس پولنگ اسٹیشنز:

ملک بھر میں 16 ہزار 766 پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس قرار دیے گئے ہیں، حساس ترین پولنگ اسٹیشنوں کے باہر فوج تعینات ہو گی۔

پنجاب میں 5 ہزار 624 پولنگ اسٹیشن حساس ترین قرار دیے گئے ہیں جن پر فی پولنگ اسٹیشن پر 5 اہلکار ہوں گے جبکہ سندھ میں 4 ہزار 430 پولنگ اسٹیشن انتہائی حساس قرار دیے گئے ہیں، یہاں فی پولنگ اسٹیشن پر 8 اہلکار ہوں گے۔

خیبرپختونخوا میں 4 ہزار 265 حساس ترین پولنگ اسٹیشنز پر 9 اہلکار فی پولنگ اسٹیشن پر ہوں گے جبکہ بلوچستان میں 1047 انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنوں میں ہر پولنگ اسٹیشن پر 9 اہلکار ہوں گے۔

اسلام آباد سے قومی اسمبلی کی 3 نشستوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے جبکہ پنجاب سے قومی اسمبلی کی 141 اور صوبائی کی 297 نشستوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے۔

سندھ سے قومی اسمبلی کی 61 اور صوبائی کی 130، خیبرپختونخوا سے قومی اسمبلی کی 45 اور صوبائی کی 115 جبکہ بلوچستان سے قومی اسمبلی کی 16 اور صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں پر پولنگ ہو گی۔

لاہورکے حلقے:

لاہورشہر کے 18 مقامات پر پولنگ کا سامان ریٹرننگ افسروں کے حوالے کر دیا گیاہے۔
این اے 117 کیلئے گورنمنٹ گریجویٹ کالج راوی روڈ شاہدرہ سے سامان جاری، این اے 118 اور 119 کیلئے یو ای ٹی لاہور، این اے 120 کیلئے گرلز کالج رکھ چھبیل سے سامان حوالے کیا گیاہے۔
این اے 121 کیلئے سٹی ڈسٹرکٹ گرلز ہائی سکول گڑھی شاہو سے سامان دیا گیا، این اے 122 کیلئے اسلامیہ ہائی سکول صدر لاہور کینٹ سے الیکشن میٹریل حوالے کیا گیا، این اے 123 کیلئے گریجویٹ کالج فار ویمن کاہنہ نو جبکہ پی پی 152 کیلئے کوئین میری کالج لاہور سے سامان بھجوایا گیا۔

ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر و ڈپٹی کمشنر لاہور رافعہ حیدر کا کہنا ہے الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق تمام عملے کو ذمہ داریاں تفویض کر دی گئی ہیں،

لاہورکی سیکورٹی صورتحال:

لاہور سمیت تمام اضلاع میں پولیس ٹیموں نے ڈیوٹی پوائنٹس سنبھال لیئے ہیں، پنجاب پولیس کےایک لاکھ 30 ہزار سے زائد افسران و اہلکار الیکشن سکیورٹی پر تعینات کیے گئے ہیں، انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کیلئے 32 ہزار سے زائد سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کا کام مکمل کرلیاگیاہے،

سیکورٹی حکام کے مطابق الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر من و عن عمل در آمد یقینی بنایا جا رہا ہے، انتخابی ضابطہ اخلاق، دفعہ 144، اسلحہ کی خلاف ورزی پر ذمہ داران کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں جاری ہیں، پولنگ سٹیشنز پر ہوائی فائرنگ، لڑائی جھگڑے اور انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے پر بلا تفریق کارروائی ہوگی۔

صوبہ بھر میں انتہائی حساس پولنگ سٹیشنز پر اضافی نفری، ڈولفن فورس اور کوئیک رسپانس سمیت دیگر ٹیمیں تعینات ہیں ، ملک دشمن و شر پسند عناصر کو روکنے کیلئے بارڈر چیک پوسٹوں پر سخت نگرانی کا عمل بھی جاری ہے۔

الیکشن کمیشن نے عام انتخابات کے لیے 26 کروڑ بیلٹ پیپر چھاپے ہیں اور الیکشن کے دن ملک بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے۔

چارحلقوں میں پولنگ ملتویٰ:

چار انتخابی حلقوں میں امیدواروں کی اموات کے باعث پولنگ ملتوی کی گئی ہے۔

پی کے91 کوہاٹ 2 میں امیدوار عصمت اللّٰہ خٹک کے انتقال کے باعث پولنگ نہیں ہو گی جبکہ این اے 8 باجوڑ، پی کے 22 باجوڑ 4 میں امیدوار ریحان زیب کی موت پر آج پولنگ نہیں ہو گی جبکہ پی پی 266 رحیم یار خان 12 میں امیدوار اسرار حسین کے انتقال پر الیکشن نہیں ہو گا۔

متعلقہ حلقوں میں الیکشن عام انتخابات کے بعد ہوں گے، جنرل الیکشن کے بعد ان حلقوں کے شیڈول کا اعلان ہو گا۔

خیبر سے کراچی تک 16 شہروں کے 50 حلقوں میں بڑے مقابلے:

ملک کے 16 شہروں کے 50 اہم حلقوں میں زبردست مقابلہ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

کوئٹہ، گجرات، سرگودھا اور گوجرانوالہ میں تین پاور ہاؤسز آپس میں ٹکراتے ہیں۔ اسی طرح پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، اور سیالکوٹ میں دو بڑے مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔

نوشہرہ، لاڑکانہ، بدین اور پشین اور صوابی میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔

ایک طرف مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پی ٹی آئی کی یاسمین راشد آمنے سامنے ہیں، تو دوسرے رنگ میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو مسلم لیگ (ن) کے عطا تارڑ سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ مریم نواز کا مقابلہ پی ٹی آئی کی صنم جاوید کے ساتھ تھا لیکن انہوں نے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے کہا ان کی جگہ عباد فاروق لیں گے۔

۔

اسی طرح جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا مقابلہ پی ٹی آئی کے علی امین گنڈا پور سے ہوگا، جب کہ سابق صدر آصف زرداری جی ڈی اے کے شیر محمد کے ساتھ سیاسی تصادم میں مصروف ہیں۔

آئی پی پی کے سربراہ جہانگیر کا مقابلہ پی ٹی آئی کے عامر ڈوگر سے، اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے احمد حسن سے ہے۔

پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے سربراہ پرویز خٹک پی ٹی آئی کے شاہد خٹک کے مدمقابل ہیں، اور پی ٹی آئی کے سلمان اکرم راجہ آئی پی پی کے عون چوہدری کو چیلنج کر رہے ہیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل مسلم لیگ ن کے حاجی آذر رفیق سے آمنے سامنے ہیں اور مسلم لیگ ن کے رانا ثناء اللہ تحریک انصاف کے نثار جٹ سے آمنے سامنے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف کو پی ٹی آئی کی ریحانہ ڈار نے چیلنج کیا ہے، جب کہ آزاد امیدوار چوہدری نثار علی خان کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے راجہ قمر السلام سے ہے۔

آنے والی دوڑ میں تین سابق وزرائے اعظم چوہدری شجاعت حسین، عمران خان اور شاہد خاقسن عباسی حصہ نہیں لے رہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کو سخت قانونی چیلنجز کا سامنا ہے جس سے ان کے سیاسی کیریئر کو پٹری سے اترنے کا خطرہ ہے۔ بانی پی ٹی آئی سنگین عدالتی مقدمات میں الجھے ہوئے ہیں، جس سے ان کی سیاسی تقدیر پر شکوک پیدا ہو رہے ہیں۔

دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف، شہباز شریف، راجہ پرویز اشرف اور یوسف رضا گیلانی جیسے سیاسی ہیوی ویٹ، سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، اور مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز آئندہ انتخابات میں مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

قیاس آرائیاں ہیں کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کو بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی)، سندھ میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم-پی) جیسی سیاسی جماعتوں سے مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین اور پنجاب میں استحکام پاکستان پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کی حکومت ہوسکتی ہے۔

میاں محمد نواز شریف
لاہور کے حلقہ این اے 130 سے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کا مقابلہ پی ٹی آئی کی یاسمین راشد سے ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے وحید عالم خان نے 2018 میں یاسمین راشد کو شکست دے کر یہ نشست جیتی تھی جو اس وقت این اے 125 تھا۔

اس بار یہاں سے پیپلز پارٹی کے اقبال احمد خان، ایم کیو ایم پی کی سمیعہ ناز اور جماعت اسلامی کے صوفی خلیق احمد بٹ بھی دوڑ میں شامل ہیں۔

نواز شریف کی پوزیشن بہت بلند نظر آتی ہے کیونکہ ان کی کلیدی مخالف یاسمین راشد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں، اور ان کی پارٹی بلے کا نشان کھو بیٹھی ہے اور وہ اپنے ووٹروں کو اتنا متحرک نہیں کر سکے گی جتنا مسلم لیگ ن کر سکتی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری
بلاول بھٹو زرداری این اے 127 لاہور سے مسلم لیگ ن کے رہنما عطاء اللہ تارڑ اور پی ٹی آئی کے ظہیر عباس کھوکھر کے مدمقابل الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔ عطا اللہ تارڑ کو اس حلقے میں معمولی برتری حاصل ہے۔ اسی طرح بلاول این اے 196 قمبر شہدا کوٹ ون سے پی ٹی آئی کے امیدوار حبیب اللہ کے مدمقابل ہیں۔ اس حلقے میں بظاہر بلاول کو برتری حاصل ہے۔

2018 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے این اے 200، ضلع لاڑکانہ سے الیکشن لڑا تھا۔ انہوں نے 84,538 ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ ان کے مدمقابل متحدہ مجلس عمل کے راشد محمود سومرو نے 50,910 ووٹ حاصل کیے۔ بلاول 33628 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے۔

آصف علی زرداری
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری این اے 207 شہید بینظیر آباد ون سے جی ڈی اے کے سردار شیر محمد رند بلوچ کے مدمقابل الیکشن لڑ رہے ہیں۔ 2018 کے الیکشن میں سابق صدر نے انہیں 47,024 ووٹوں کی برتری سے شکست دی اور اس بار پھر اس حلقے پر زرداری غالب نظر آرہے ہیں۔

آصف علی زرداری نے 2018 کے انتخابات میں این اے 213، ضلع بے نظیر آباد ون سے حصہ لیا تھا۔ انہوں نے اپنے حریف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سردار شیر محمد رند بلوچ کے مقابلے میں 101,370 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 54,346 ووٹ حاصل کیے۔ زرداری 47,024 ووٹوں کی برتری کے ساتھ جیتے تھے۔

شہباز شریف
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف این اے 132 قصور ٹو سے پیپلز پارٹی کی شاہین صفدر کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے محمد حسین ڈوگر اس حلقے سے امیدوار ہیں جو کہ آزاد ہیں۔ اس حلقے میں سخت مقابلہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے جہاں شہباز شریف کو اپنے مدمقابل پر برتری حاصل ہے۔

اسی طرح این اے 123 لاہور 7 سے شہباز شریف کا مقابلہ پی ٹی آئی کے افضل عظیم ایڈووکیٹ اور پیپلز پارٹی کے رانا ضیاء الحق سے ہے۔ شہباز شریف بھی بظاہر اپنے مخالفین سے بہتر متحرک ہیں۔

شہباز شریف نے 2018 کے انتخابات میں این اے 132، ضلع لاہور10 سے حصہ لیا تھا۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری محمد منشا سندھو کے مقابلے میں 95,864 ووٹ حاصل کیے جنہوں نے 49,148 ووٹ حاصل کیے تھے۔ شہباز شریف 46716 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے تھے۔

مریم نواز
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز این اے 119 لاہور ٹو سے پیپلز پارٹی کے افتخار شاہد کے مدمقابل الیکشن لڑیں گی۔ پی ٹی آئی نے اس حلقے سے پہلے شہزاد فاروق کو اپنا امیدوار نامزد کیا تھا لیکن بعد میں فاروق نے صنم جاوید کی حمایت میں اپنے کاغذات واپس لے لیے جب کہ ٹی ایل پی کے محمد ظہیر نے بھی کاغذات جمع کرائے تھے۔ مریم نواز اس حلقے میں بہتر پوزیشن میں نظر آتی ہیں۔ یہ ان کا پہلا الیکشن ہوگا۔

مولانا فضل الرحمان
این اے 44 میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کے علی امین گنڈا پور، پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی اور ن لیگ کے وقار احمد خان کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔

پی ٹی آئی کے علی امین کو بظاہر ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنے سیاسی حریفوں پر برتری حاصل ہے۔

2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے رہنما علی امین گنڈا پور نے جے یو آئی (ف) کے سربراہ کے خلاف یہ نشست جیتی تھی۔

علاوہ ازیں جے یو آئی (ف) کے سربراہ این اے 265 پشین سے بھی عام انتخابات میں حصہ لینے جا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک یا بنوں کے اضلاع سے الیکشن لڑنے والے ہیں، جن میں سے زیادہ تر ان کے آبائی یا پڑوسی حلقے ہیں۔

2018 میں، فضل الرحمان نے دو حلقوں، این اے 38 اور 39 سے الیکشن لڑا تھا اور ڈی آئی خان کی دونوں نشستوں سے ہار گئے تھے۔ وہ پی ٹی آئی رہنماؤں علی امین گنڈا پور اور یعقوب شیخ سے الیکشن ہارے تھے۔

محمود خان اچکزئی
پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے-میپ) کے چیئرمین محمود خان اچکزئی این اے 263 کوئٹہ ٹو سے مسلم لیگ (ن) کے جمال شاہ کاکڑ، پیپلز پارٹی کے روزی خان کاکڑ، پی ٹی آئی کے سالار خان کاکڑ اور جے یو آئی (ف) کے مفتی روزی خان کے مدمقابل ہیں۔

سرفہرست تین امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

این اے 266 سے محمود خان اچکزئی کا مقابلہ پی ٹی آئی کے نذر محمد کاکڑ، اے این پی کے حاجی عبدالمنان خان درانی اور پیپلز پارٹی کے مولانا صلاح الدین ایوبی سے ہے۔ یہ مقابلہ بھی سخت ہے۔

پی کے میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی 2018 کے انتخابات میں اپنے حلقہ این اے 263 قلعہ عبداللہ، بلوچستان سے ہار گئے تھے۔

انہوں نے 19,989 ووٹ حاصل کیے جب کہ اے این پی کے اصغر خان اچکزئی نے 21,417 ووٹ حاصل کیے اور انہیں 1,428 ووٹوں سے شکست دی۔

دوسری جانب محمود خان نے جمعہ کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 265 سے باضابطہ طور پر اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے ہیں۔ امیدواروں کی دستبرداری کے آخری دن کیا جانے والا یہ اقدام مولانا فضل الرحمان کے حق میں ایک اسٹریٹجک فیصلے کی نشاندہی کرتا ہے۔

اسد محمود
جے یو آئی (ف) کے رہنما اسد محمود عام انتخابات میں این اے 43 ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان ون سے پی ٹی آئی کے داور خان کنڈی اور پیپلز پارٹی کے انور سیف اللہ خان کے مدمقابل ہیں۔ مقابلہ سخت ہے اور 8 فروری بتائے گا کہ اس حلقے میں کون جیتے گا۔

جے یو آئی (ف) کے رہنما اسد محمود نے 2018 کا الیکشن ضلع ٹانک کے حلقہ این اے 37 سے لڑا تھا۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے امیدوار حبیب اللہ خان کے مقابلے میں 28,563 ووٹ حاصل کیے جنہوں نے 16,659 ووٹ حاصل کیے۔ اسد محمود 11 ہزار 904 ووٹوں کی برتری سے کامیاب ہوئے۔

پرویز خٹک
پرویز خٹک کسی سیاسی جماعت (پاکستان تحریک انصاف-پارلیمینٹیرین) کے سربراہ کے طور پر اپنا پہلا انتخاب این اے 33 نوشہرہ ون سے پی ٹی آئی کے سید شاہ احد علی شاہ اور اے این پی کے خان پرویز (خان بابا) کے مقابل لڑ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سلیم کھوکر اور جماعت اسلامی کے عنایت الرحمان بھی اس دوڑ میں شامل ہیں۔

ووٹرز کو اس حلقے میں تمام امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔

پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے سابق رہنما پرویز خٹک نے 2018 کے انتخابات میں این اے 25، نوشہرہ 1 سے حصہ لیا تھا۔

انہوں نے 82,208 ووٹ حاصل کیے اور پیپلز پارٹی کے امیدوار خان پرویز خان کے مقابلے میں 35,661 ووٹ حاصل کیے، پرویز خٹک 46,547 ووٹوں کی برتری کے ساتھ کامیاب ہوئے۔

امیر حیدر ہوتی
عام انتخابات میں اے این پی کے امیر حیدر ہوتی این اے 22 مردان ٹو سے پی ٹی آئی کے عاطف خان، جے یو آئی ف کے نیاز علی، پیپلز پارٹی کے عابد علی شاہ اور جے آئی کے سید کلیم باچا کے مدمقابل ہیں۔

امیر حیدر ہوتی نے 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کے عاطف خان پر صرف 152 ووٹ لے کر برتری حاصل کی۔

اے این پی کے رہنما اور خیبرپختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ امیر حیدر اعظم خان نے 2018 کا الیکشن مردان ٹو ضلع کے این اے 21 سے لڑا۔

انہوں نے پی ٹی آئی رہنما محمد عاطف کے مقابلے میں 79,151 ووٹ حاصل کیے جنہوں نے 78,999 ووٹ حاصل کیے۔ جناب حیدر ہوتی نے صرف 152 ووٹ لے کر برتری حاصل کی۔

چوہدری نثار علی خان
سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان عام انتخابات میں این اے 53 راولپنڈی ٹو سے پی ٹی آئی کے کرنل (ر) اجمل صابر اور مسلم لیگ (ن) کے راجہ قمر الاسلام کے مدمقابل ہیں۔ اسی طرح وہ این اے 54 راولپنڈی تھری سے پی ٹی آئی کے ملک تیمور مسعود اور پیپلز پارٹی کے قمر عباس کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔

این اے 53 میں چوہدری نثار علی خان اور راجہ قمر الاسلام کے درمیان سخت مقابلہ ہے جبکہ این اے 54 میں مذکورہ تینوں امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

تجربہ کار سیاست دان چوہدری نثار علی خان نے 2018 کے عام انتخابات میں پی پی 10 راولپنڈی5 سے آزاد امیدوار کے طور پر پنجاب صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے 53,212 ووٹ حاصل کرکے نصیر الحسنین شاہ کو شکست دی، جو ایک آزاد سیاست دان ہیں جنہوں نے 22،263 ووٹ حاصل کیے۔

خالد مقبول صدیقی
خالد مقبول صدیقی عام انتخابات میں این اے 248 کراچی سے پی ٹی آئی کے ارسلان خالد، پیپلز پارٹی کے محمد حسن خان اور جماعت اسلامی کے محمد بابر خان کے مدمقابل ہیں۔ خالد مقبول صدیقی اپنے مخالفین پر واضح برتری رکھتے ہیں۔

ایم کیو ایم پی کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے 2018 کا الیکشن کراچی سینٹرل تھری کے حلقہ این اے 255 سے لڑا۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے رہنما محمود باقی مولوی کے مقابلے میں 59,781 ووٹ حاصل کیے جنہوں نے 50,135 ووٹ حاصل کیے۔ خالد مقبول صدیقی 9,646 ووٹوں کے فرق سے جیت گئے تھے۔

راجہ پرویز اشرف
راجہ پرویز اشرف این اے 52 راولپنڈی ون سے پی ٹی آئی کے طارق عزیز بھٹی ایڈووکیٹ اور مسلم لیگ ن کے راجہ محمد جاوید اخلاص کے مدمقابل ہیں۔

2018 میں سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے راولپنڈی ٹو ضلع کے این اے 58 سے الیکشن لڑا تھا۔ انہوں نے پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری محمد عظیم کے مقابلے میں 125,480 ووٹ حاصل کیے جنہوں نے 97,084 ووٹ حاصل کیے۔ اشرف کو 28 ہزار 396 ووٹوں کی برتری حاصل تھی۔

قمر زمان کائرہ
این اے 65 گجرات فور سے پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ مسلم لیگ (ن) کے چوہدری نصیر احمد عباس سدھو کے مدمقابل ہیں۔ پی ٹی آئی نے ابھی تک اس حلقے میں اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیا۔ اس حلقے میں بھی سخت مقابلہ متوقع ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ 2018 کے انتخابات میں این اے 70، ضلع گجرات تھری میں پی ٹی آئی سید فیض الحسن سے الیکشن ہار گئے تھے۔ فیض الحسن 95 ہزار 415 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے جبکہ مسلم لیگ ن کے امیدوار چوہدری جعفر اقبال نے 67 ہزار 293 ووٹ حاصل کیے۔ کائرہ 42 ہزار 550 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔

سید خورشید احمد شاہ
خورشید شاہ این اے 201 سکھر ٹو سے پی ٹی آئی کے ستار چاچڑ، جے یو آئی (ف) کے مولانا صالح محمد اور جماعت اسلامی کے سلطان لاشاری کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔ اس وقت خورشید شاہ بظاہر اپنے مخالفین پر سبقت لے رہے ہیں۔

سید خورشید احمد شاہ نے 2018 میں این اے 206، ضلع سکھر ون سے الیکشن لڑا تھا، انہوں نے پی ٹی آئی کے امیدوار سید طاہر حسین شاہ کے مقابلے میں 84،708 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 58،767 ووٹ حاصل کیے۔ خورشید شاہ نے اپنے سیاسی حریف کے مقابلے میں 25,941 ووٹوں کی برتری حاصل کی تھی۔

رانا ثناء اللہ خان
رانا ثناء اللہ خان این اے 100 فیصل آباد سکس سے پی ٹی آئی کے ڈاکٹر نثار جٹ اور پیپلز پارٹی کی سدرہ سعید کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔ نثار جٹ اور رانا ثناء کے درمیان سخت مقابلہ ہے لیکن اس حلقے میں مسلم لیگ ن کو تھوڑی برتری حاصل ہے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناء اللہ خان نے 2018 میں این اے 106، فیصل آباد سکس سے الیکشن لڑا تھا، انہوں نے پی ٹی آئی کے امیدوار نثار احمد کے مقابلے میں 106,137 ووٹ حاصل کیے تھے، جنہوں نے 103,899 ووٹ حاصل کیے۔ ثناء اللہ 2238 ووٹوں کی برتری پر تھے۔

خواجہ محمد آصف
خواجہ محمد آصف این اے 72 سیالکوٹ ٹو سے پیپلز پارٹی کے خواجہ اویس مشتاق اور پی ٹی آئی کی ریحانہ امتیاز ڈار جو کہ عثمان ڈار کی والدہ ہیں، سے مقابلہ کرنے جا رہے ہیں۔ این اے 72 سیالکوٹ میں کاٹنے کا مقابلہ متوقع ہے جیسا کہ گزشتہ 2018 کے انتخابات میں ہوا تھا۔

خواجہ محمد آصف نے 2018 میں این اے 73، سیالکوٹ ٹو سے الیکشن لڑا تھا، انہوں نے پی ٹی آئی کے امیدوار محمد عثمان ڈار کے مقابلے میں 117,002 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 115,596 ووٹ حاصل کیے۔ سیالکوٹ میں خواجہ آصف کو 1406 ووٹوں کی برتری حاصل رہی تھی۔

احسن اقبال
این اے 76 نارووال ٹو سے مسلم لیگ ن کے چوہدری احسن اقبال چوہدری پی ٹی آئی کے کرنل (ر) جاوید کھلون اور پیپلز پارٹی کے سخاوت مسیح کے مدمقابل الیکشن لڑ رہے ہیں۔ احسن اقبال کو بظاہر اس حلقے میں غالب حمایت حاصل ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے 2018 میں این اے 78، ضلع نارووالٹو سے الیکشن لڑا، انہوں نے 160,020 ووٹ حاصل کرکے پی ٹی آئی کے امیدوار ابرار الحق کے مقابلے میں 115,596 ووٹ حاصل کیے۔ احسن اقبال نے اپنے سیاسی حریف کے مقابلے میں 71 ہزار 331 ووٹوں کی برتری حاصل کی۔

عبدالعلیم خان
آئی پی پی کے صدر عبدالعلیم خان این اے 117 لاہور ون سے پیپلز پارٹی کے سید آصف ہاشمی اور پی ٹی آئی کے علی اعجاز بٹر کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔ مسلم لیگ ن نے اس حلقے میں علیم خان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ عبدالعلیم خان کافی مضبوط امیدوار ہیں جن کی اس حلقے سے جیت کا امکان ہے۔

2018 میں وہ این اے 129 میں اپنے مخالف مسلم لیگ ن کے ایاز صادق کے خلاف ہار گئے تھے۔

خرم دستگیر خان
این اے 78 گوجرانوالہ ٹو سے مسلم لیگ ن کے رہنما خرم دستگیر خان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے حارث میراں اور پی ٹی آئی کے مبین عارف جٹ سے ہے۔ خرم دستگیر کو اپنے حلقے میں اپنے سیاسی حریفوں پر برتری حاصل ہے۔

انہوں نے 2018 کے انتخابات میں این اے 81، ضلع گوجرانوالہ3 سے الیکشن لڑا اور پی ٹی آئی رہنما چوہدری محمد صدیق کے مقابلے میں 130,978 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 88,506 ووٹ حاصل کیے۔ خرم دستگیر نے محمد صدیق کے مقابلے میں 42 ہزار 472 ووٹوں کی بھاری برتری حاصل کی۔

میر لشکری رئیسانی
میر لشکری رئیسانی کا مقابلہ این اے 263 کوئٹہ ٹو سے پی کے-میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی، مسلم لیگ ن کے جمال شاہ کاکڑ، پیپلز پارٹی کے روزی خان کاکڑ، پی ٹی آئی کے قاسم سوری/سالار خان کاکڑ اور جے یو آئی (ف) کے مفتی روزی خان سے ہے۔ تمام امیدوار کافی مضبوط ہیں اور اس حلقے میں حیران کن نتیجہ سامنے آسکتا ہے۔

نوابزادہ شاہ زین بگٹی
قومی وطن پارٹی کے سربراہ نوابزادہ شاہ زین بگٹی این اے 253 سے مسلم لیگ (ن) کے میر دوستین خان ڈومکی، جے یو آئی (ف) کے حاجی نصیر احمد کاکڑ اور پی ایم اے پی کے سردار تیمور خان موسیٰ خیل سے عام انتخابات میں حصہ لیں گے۔ اس حلقے میں شاہ زین بگٹی اور دوستین خان ڈومکی کے درمیان سخت ترین مقابلہ متوقع ہے۔

انہوں نے 2018 کے انتخابات کے دوران این اے 259، ڈیرہ بگٹی ضلع سے الیکشن لڑا اور ایک آزاد امیدوار کے مقابلے میں 22,787 ووٹ حاصل کیے جس نے 21,566 ووٹ حاصل کیے۔ شاہ زین بگٹی نے اپنے مخالف کے مقابلے میں 1,221 ووٹوں کے معمولی فرق سے کامیابی حاصل کی تھی۔

سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ
ڈی جی خان کے حلقہ این اے 184 سے سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ آزاد امیدوار کے طور پر مسلم لیگ ن کے عبدالقادر خان کھوسہ اور پی ٹی آئی کے علی محمد خلول کے مدمقابل ہیں۔ اس حلقے میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔

2018 میں، ایک آزاد امیدوار، محمد امجد فاروق خان کھوسہ نے این اے 190، ڈی جی خان ٹو میں سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ کے خلاف کامیابی حاصل کی۔ امجد کھوسہ نے 72,300 ووٹ حاصل کیے ان کے مقابلے میں کھوسہ نے 72,171 ووٹ حاصل کیے۔ امجد فاروق خان کھوسہ کو 129 ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔

غلام سرور خان
این اے 54 راولپنڈی تھری سے غلام سرور خان پی ٹی آئی کی عذرا مسعود اور پیپلز پارٹی کے قمر عباس کے مقابل الیکشن لڑیں گے۔ یہاں بھی سخت مقابلہ متوقع ہے کیونکہ اس حلقے میں مسلم لیگ ن نے آئی پی پی کے ساتھ ڈیل کے بعد اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا۔

2018 میں غلام سرور خان نےاین اے 59، ضلع راولپنڈی تھری سے آزاد امیدوار چوہدری نثار علی خان کے خلاف الیکشن جیتا، غلام سرور نے چوہدری نثار کے مقابلے میں 89,520 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 22,738 کی برتری کے ساتھ 66,782 ووٹ حاصل کیے۔

شیخ رشید احمد
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد این اے 56 راولپنڈی سے اپنے حریف مسلم لیگ ن کے حنیف عباسی کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں۔ حنیف عباسی اس وقت بہتر پوزیشن میں نظر آ رہے ہیں۔

شیخ رشید نے 2018 میں این اے 62، ضلع راولپنڈی سکس سے الیکشن لڑا تھا جہاں انہوں نے دانیال چوہدری کے مقابلے میں 119,362 ووٹ حاصل کیے تھے، جنہوں نے 91,879 ووٹ حاصل کیے تھے۔ شیخ رشید کو 27,483 ووٹوں کی برتری حاصل تھی۔

عمر ایوب خان
عام انتخابات میں پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب خان حلقہ این اے 18 سے جے یو آئی ف کے محمد ایوب اور پیپلز پارٹی کے سید زوار حسین نقوی کے مدمقابل ہیں۔ اس حلقے میں عمر ایوب خان کو اپنے مخالفین پر برتری حاصل ہے۔

انہوں نے 2018 میں این اے 17، ضلع ہری پور سے الیکشن لڑا اور مسلم لیگ (ن) کے بابر نواز خان کے مقابلے میں 173,125 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 133,158 ووٹ حاصل کیے۔ عمر ایوب کو 39,967 ووٹوں کی برتری حاصل تھی۔

خواجہ سعد رفیق
مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق عام انتخابات میں این اے 122 لاہور سکس سے پی ٹی آئی کے سردار لطیف کھوسہ اور پیپلز پارٹی کے چوہدری عاطف رفیق کے مدمقابل ہیں۔ سعد رفیق اس بار اس حلقے میں بہتر پوزیشن میں ہیں۔

2018 میں، پی ٹی آئی کے رہنما عمران احمد نے 2018 میں این اے 131، ضلع لاہور نو میں کامیابی حاصل کی اور بعد میں یہ نشست خالی کر دی۔ اسی حلقے سے ضمنی انتخاب میں سعد رفیق کامیاب ہوئے۔

سینیٹر منظور احمد
کوئٹہ کے حلقہ این اے 262 سے بی اے پی کے منظور احمد کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے حاجی محمد رمضان اچکزئی، مسلم لیگ (ن) کے نواب سلمان خلجی اور پی ٹی آئی کے سیف اللہ کاکڑ سے ہے۔ اس حلقے میں تمام امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

جہانگیر خان ترین
آئی پی پی کے چیئرمین جہانگیر خان ترین ملتان کے حلقہ این اے 149 لودھراں سے پی ٹی آئی کے ملک عامر ڈوگر کے مدمقابل الیکشن لڑنے جا رہے ہیں۔ آئی پی پی کے چیئرمین لودھراں کے حلقہ این اے 155 سے مسلم لیگ ن کے صدیق بلوچ کے مدمقابل ہیں۔ دونوں حلقوں میں سخت مقابلہ متوقع ہے۔

سلمان اکرم راجہ
راجہ سلمان اکرم راجہ عام انتخابات 2024 میں این اے 128 لاہور سے پیپلز پارٹی کے عدیل غلام محی الدین اور آئی پی پی کے عون چوہدری کے مدمقابل ہیں۔ سلمان اکرم راجہ اپنے مقابل پر ہلکی سی برتری رکھتے ہیں۔

سید یوسف رضا گیلانی
این اے 148 ملتان سے 2024 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی مسلم لیگ ن کے احمد حسین دیہڑ اور پی ٹی آئی کے تیمور ملک کے مدمقابل ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ایم این اے احمد حسین ڈیہڑ ان کے سخت ترین مخالف ہیں۔

سید علی موسیٰ گیلانی
پیپلز پارٹی کے سید علی موسیٰ گیلانی عام انتخابات میں این اے 151 ملتان فور سے مسلم لیگ ن کے عبدالغفار گوگر اور پی ٹی آئی کی مہر بانو قریشی کے مدمقابل ہیں۔ یہاں سخت مقابلہ متوقع ہے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما سید علی موسیٰ گیلانی نے 2023 کے تازہ ترین ضمنی انتخابات کے دوران این اے 157، ملتان فور سے الیکشن لڑا، انہوں نے پی ٹی آئی کی امیدوار مہر بانو قریشی کے مقابلے میں 107,327 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 82,141 ووٹ حاصل کیے۔ موسیٰ گیلانی نے اپنے سیاسی حریف کے مقابلے میں 25,186 ووٹوں کی برتری حاصل کی۔

اختر مینگل
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل عام انتخابات میں این اے 256 میں آزاد امیدوار شفیق مینگل اور نواب اسرار اللہ کے مدمقابل ہیں۔ یہاں سخت مقابلہ متوقع ہے۔

اختر مینگل نے 2018 کے انتخابات میں این اے 269 خضدار ضلع سے حصہ لیا اور بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما کے مقابلے میں 53,183 ووٹ حاصل کیے، جو 19,797 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اختر مینگل اپنے مخالفین کے مقابلے میں 33 ہزار 386 ووٹوں کی برتری کے ساتھ کامیاب ہوئے تھے۔

ڈاکٹر فہمیدہ مرزا
سابق سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا این اے 223 بدین ٹو سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ ان کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے حاجی رسول بخش چانڈیو اور پی ٹی آئی کے عزیز اللہ ڈیرو سے ہے۔ اس حلقے میں ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کا مقابلہ کانٹے دار لگتا ہے۔

جی ڈی اے کی سینئر رہنما ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے 2018 کا الیکشن بدین-2 ضلع کے این اے 230 سے لڑا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی رہنما حاجی رسول بخش چانڈیو کے مقابلے میں 94,988 ووٹ حاصل کیے جنہوں نے 93,991 ووٹ حاصل کیے تھے۔ فہمیدہ مرزا 997 ووٹوں کی برتری سے جیت گئی تھیں۔

جام کمال خان
این اے 257 سے مسلم لیگ ن کے جام کمال خان آزاد امیدوار اسلم بھوٹانی، پیپلز پارٹی کے عبدالوہاب بزنجو، جے یو آئی (ف) کے میر عالم نوشیروانی اور پی ٹی آئی کے میر علی احمد زہری کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔ مقامی سروے کے مطابق اسلم بھوتانی اور جام کمال کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔

بی اے پی کے ٹکٹ پر جام کمال خان نے 2018 میں پی بی 50، ضلع لسبیلہ ٹو سے آزاد امیدوار نصراللہ کے خلاف الیکشن جیتا تھا۔ انہوں نے نصر اللہ کے مقابلے میں 38,885 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 26,050 ووٹ حاصل کیے تھے۔

عبدالقدوس بزنجو
پیپلز پارٹی کے عبدالقدوس بزنجو کا مقابلہ نیشنل پارٹی کے خیر جان، ٹی ایل پی کے محمد ابراہیم، جے یو آئی (ف) کے خالد نذر، بی اے پی کے مہر اللہ حسنی سے ہے۔ عبدالقدوس بزنجو، خالد نذر اور مہر اللہ حسنی کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

عبدالقدوس بزنجو نے 2018 میں پی بی 44، ضلع آواران-کم-پنجگور سے نیشنل پارٹی کے خضر جان کے خلاف الیکشن جیتا تھا۔ انہوں نے خیر جان کے مقابلے میں 8,055 ووٹ حاصل کیے ، جنہوں نے 5,963 ووٹ حاصل کیے تھے۔

سید مراد علی شاہ
سندھ کے پی پی 77 جامشورو سے پیپلز پارٹی کے سید مراد علی شاہ جی ڈی اے سے روشن علی بریرو کے مدمقابل ہیں۔ مراد علی شاہ کو اس حلقے میں اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں معقول حمایت حاصل ہے۔

2018 کے انتخابات میں سید مراد علی شاہ نےپی ایس 34، ضلع نوشہرو فیروزٹو میں جی ڈی اے کے عبدالستار راجپر کے خلاف کامیابی حاصل کی۔

انہوں نے 51,419 ووٹ حاصل کیے اور 19,034 ووٹوں کے نمایاں فرق سے آگے رہے، عبدالستار راجپر نے 32,385 ووٹ حاصل کر پائے تھے۔

محمود خان
پی ٹی آئی پی کے رہنما محمود خان این اے 4 سوات تھری سے پی ٹی آئی کے امیدوار سہیل سلطان، اے این پی کے ڈاکٹر محمد سلیم خان اور جے یو آئی (ف) کے رحیم اللہ کے مدمقابل الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اگر مراد سعید الیکشن نہیں لڑتے تو مراد سعید کی جگہ سہیل سلطان بیان کردہ امیدواروں کے ساتھ الیکشن لڑیں گے۔

پی ٹی آئی کی نمائندگی کرنے والے محمود خان، 2018 میں پی کے 9، ضلع سوات-8 میں، اے این پی کے محمد ایوب خان کو شکست دے کر فاتح کے طور پر سامنے آئے۔ محمود خان نے 25,697 ووٹ حاصل کیے جب کہ ایوب خان نے 11,509 ووٹ حاصل کیے تھے۔

ڈاکٹر فاروق ستار
این اے 241 کراچی سے ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار پی ٹی آئی کے خرم شیرزمان اور پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر مرزا اختر بیگ کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔ فاروق ستار نے پچھلی بار الیکشن نہیں لڑا تھا جبکہ پی ٹی آئی کے خرم شیرزمان نے 2018 میں پی ایس 110، ضلع کراچی جنوبی فور سے پیپلز پارٹی کے سید نجمی عالم کے خلاف الیکشن جیتا تھا۔ خرم شیرزمان نے 38,884 ووٹ حاصل کیے تھے، جب کہ سید نجمی عالم نے 14,049 ووٹ حاصل کیے تھے۔

حلیم عادل شیخ
این اے 238 سے پی ٹی آئی رہنما حلیم عادل شیخ پیپلز پارٹی کے ظفر جھنڈیر، مسلم لیگ ن کے ریحان قیصر اور ایم کیو ایم پی کے صادق افتخار کے مدمقابل ہیں۔ حلیم عادل شیخ نے 2018 میں پی ایس 99، ضلع کراچی ایسٹون میں پیپلز پارٹی کے شہاب الدین کے خلاف کامیابی حاصل کی، انہوں نے 6,029 ووٹ حاصل کیے، جب کہ شہاب الدین نے 5,402 ووٹ حاصل کیے تھے۔

شہرام خان ترکئی
پی ٹی آئی کے شہرام خان ترکئی این اے 20 صوابی ٹو سے اے این پی کے وارث خان، جے یو آئی (ف) کے عبدالرحیم اور پیپلز پارٹی کے عثمان خان ترکئی کے مدمقابل الیکشن لڑ رہے ہیں۔ یہ حلقہ پیش گوئی کے لیے کافی پیچیدہ ہے کیونکہ اس میں ہزاروں کی تعداد میں ووٹرز ہیں۔ لہذا، تمام دعویداروں کے لیے ایک چیلنجنگ مقابلہ ہے۔

محمد عاطف خان
پی ٹی آئی رہنما عاطف خان این اے 22 مردان ٹو سے اے این پی کے امیر حیدر خان ہوتی، جے یو آئی (ف) کے نیاز علی اور پیپلز پارٹی کے عابد علی شاہ کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔ مقابلہ کرنے والے تمام امیدواروں کے لیے یہ ایک مشکل کال ہے۔ عاطف خان نے 2018 میں پی کے 50، ضلع مردان تھری میں اے این پی کے ہارون خان کے خلاف کامیابی حاصل کی تھی۔

اسد قیصر
پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر این اے 19 صوابی سے اپنے دو اہم مخالفین کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کے مخالف اے این پی کے شاہنواز خان اور جے یو آئی ف کے مولانا فضل علی ہیں۔ اسد قیصر کو بظاہر مقامی لوگوں کی اچھی حمایت حاصل ہے کیونکہ انہوں نے 2018 میں بھی یہ حلقہ 78970 ووٹ لے کر جیتا تھا۔

ان کے مدمقابل فضل علی نے 34217 ووٹ حاصل کیے تھے، جبکہ مسلم لیگ ن کے سجاد احمد نے 26664 اور اے این پی کے محمد اسلام نے 26427 ووٹ حاصل کیے تھے۔

اعجازالحق
این اے 55 راولپنڈی فور میں مسلم لیگ ضیاء کے اعجاز الحق کا مقابلہ مسلم لیگ ن کے ملک ابرار سے ہے۔

سردار ایاز صادق
مسلم لیگ ن کے رہنما سردار ایاز صادق این اے 120 لاہور فور سے پیپلز پارٹی کے منیر احمد اور پی ٹی آئی کے عثمان حمزہ اعوان کے مدمقابل الیکشن لڑیں گے۔

ایاز صادق اس حلقے میں دیگر سیاسی مخالفین کے مقابلے میں سازگار پوزیشن میں دکھائی دیتے ہیں۔

2018 کے انتخابات میں سابق سپیکر قومی اسمبلی اور مسلم لیگ ن کے رہنما نے این اے 129، ضلع لاہور سیون سے الیکشن لڑا۔ ایاز صادق نے اس وقت کے پی ٹی آئی کے امیدوار عبدالعلیم خان کے مقابلے میں 103,091 ووٹ حاصل کیے، جنہوں نے 95,065 ووٹ حاصل کیے تھے۔

ریاض حسین پیرزادہ
این اے 164 بہاولپور ون سے مسلم لیگ ن کے ریاض حسین پیرزادہ پی ٹی آئی کے اعجاز غدان اور پیپلز پارٹی کے سید عرفان احمد گردیزی کے مدمقابل الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ میاں ریاض حسین پیرزادہ نے اس سے قبل پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری نعیم الدین وڑائچ کے مقابلے میں 99,306 ووٹ حاصل کیے تھے۔

علی امین خان گنڈا پور
پی ٹی آئی کے رہنما علی امین خان گنڈا پور این اے 44، ڈی آئی خان ون سے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پیپلز پارٹی کی فیصل کریم کنڈی کے خلاف انتخابی میدان میں اتر رہے ہیں۔

2018 کے انتخابات میں، علی امین نے این اے 38، ضلع ڈی آءی خان ون سے الیکشن لڑا اور مولانا فضل الرحمان کے خلاف 81,032 ووٹ حاصل کیے، جو 45,796 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

میاں محمد اظہر
این اے 129 لاہور میں پی ٹی آئی کے رہنما میاں اظہر مسلم لیگ ن کے حافظ محمد نعمان اور پیپلز پارٹی کے اورنگزیب برکی کے مدمقابل ہیں۔ حماد اظہر کو عدالت کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے کے بعد وہ اس دوڑ میں شامل ہوئے۔

2018 کے انتخابات میں میاں اظہر کے بیٹے حماد اظہر نے این اے 126، ضلع لاہور فور سے 105,825 ووٹ لے کر مسلم لیگ ن کے مہر اشتیاق احمد انور کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی، جنہوں نے 102,700 ووٹ حاصل کیے۔

مصطفیٰ نواز کھوکھر
وفاقی دارالحکومت کے این اے 47 اور این اے 48 میں آزاد امیدوار مصطفیٰ نواز کھوکھر اپنے سیاسی مخالفین مسلم لیگ (ن) کے رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور پی ٹی آئی کے شعیب شاہین اور علی بخاری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ واقعی دارالحکومت میں ایک مشکل کال ہے۔

سردار مہتاب عباسی
این اے 16 ایبٹ آباد میں آزاد امیدوار سردار مہتاب عباسی کا ن لیگ کے امیدوار مرتضیٰ جاوید عباسی اور پی ٹی آئی کے علی اصغر خان سے ٹکراؤ ہے۔ انتخابات 2018 میں، مرتضیٰ جاوید عباسی نے اس حلقے میں اپنے مخالفین کے مقابلے میں معقول حد تک اچھے مارجن سے کامیابی حاصل کی تھی۔

آفتاب خان شیرپاؤ
قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیرپاؤ اپنے سیاسی مخالفین یعنی پی ٹی آئی کے انور تاج، مسلم لیگ (ن) کے جلال خان اور جے یو آئی (ف) کے حاجی ظفر علی خان اور این اے 24، چارسدہ ون میں مدمقابل ہیں۔

پی ٹی آئی کے انور تاج نے 2018 کے انتخابات میں آفتاب خان شیرپاؤ کے مقابلے میں 59371 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بار پھر سخت مقابلہ ہوگا۔

غلام احمد بلور
2024 کے عام انتخابات میں اے این پی کے امیدوار غلام احمد بلور کا مقابلہ پی ٹی آئی کے آصف خان اور جے یو آئی کے حسین احمد مدنی کے درمیان این اے 32 پشاور فائیو سے ہے۔ اس حلقے میں تینوں امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

تہمینہ دولتانہ
مسلم لیگ (ن) کی رہنما تہمینہ دولتانہ 2024 کے انتخابات میں این اے 158، وہاڑی میں اپنے مدمقابل پی ٹی آئی کے طارق اقبال چوہدری کے خلاف الیکشن لڑ رہی ہیں۔ طارق اقبال چوہدری نے 2018 کے عام انتخابات میں تہمینہ دولتانہ کو 14 ہزار سے زائد ووٹوں کے فرق سے شکست دی تھی۔ اس حلقے میں ایک بار پھر دونوں قدیم سیاسی حریفوں کے درمیان سخت مقابلہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

سراج الحق
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا این اے 6 لوئر دیر ون سے پی ٹی آئی کے بشیر خان، اے این پی کے حاجی بہادر خان اور جے یو آئی کے محمد شیر خان سے مقابلہ ہوگا۔ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر جیتنے والے بشیر خان اور سراج الحق کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

ایمن طاہر
پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ امیدوار ایمن طاہر اس وقت این اے 50، اٹک میں جیت کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ سخت مقابلے میں مصروف ہیں، ان کے اصل حریف مسلم لیگ ن کے ملک سہیل خان کامڑیال ہیں۔ اس حلقے میں انتخابی جنگ تیز ہوتی جا رہی ہے۔

شہزادہ افتخار الدین
این اے ون چترال میں مسلم لیگ (ن) کے شہزادہ افتخار الدین، جے یو آئی (ف) کے سینیٹر محمد طلحہ محمود، پی ٹی آئی کے عبداللطیف، جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبر چترالی، پیپلزپارٹی کے فضل ربی اور آزاد امیدوار اسد الرحمان، محمد جاوید خان اور مختار نبی کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے۔

پنجاب کے وہ حلقے جہاں ٹکر کے مقابلے متوقع ہیں:

الیکشن میں لاہور کے چودہ حلقوں میں بڑے ناموں میں بڑے مقابلے متوقع ہیں، اب دیکھنا ہیں کون کس حلقے میں کس کو ٹف ٹائم دے گا۔

الیکشن میں سب کی نظریں تخت لاہور پر ہے ، کل قومی اسمبلی کی چودہ نشستوں پر تگڑے مقابلے کی توقع ہے ، بلاول زرداری نانا کی تاریخ دہرانے کیلئے لاہور سے انتخابی اکھاڑے میں اترگئے جبکہ این اے ایک سو ستائیس پر ن لیگ کے عطاتارڑ ان کے مدمقابل ہیں۔

این اے 130 پر میاں نوازشریف اور ڈاکٹر یاسمین راشد آمنے سامنے ہیں جبکہ این اے 123 پرتین امیدواروں میں مقابلہ ہے، آزاد امیدوار افضل عظیم کے ساتھ جماعتِ اسلامی کے لیاقت بلوچ کا بھی شہباز شریف سے مقابلہ ہوگا۔

این اے 119 میں زور کا جوڑ پڑے گا ، مریم نواز کو آزادامیدوارشہزاد فاروق کا سامنا ہے جبکہ این اے 122 میں سعد رفیق اور آزاد امیدوار سردارلطیف کھوسہ آمنے سامنے ہیں ۔

این اے 117 پر آئی پی پی کے عبدالعلیم خان کا مقابلہ آزاد امیدوار علی اعجاز سے ہے جبکہ این اے 117 پر حمزہ شہباز اور
آزاد امیدوار عالیہ حمزہ میں زور کا جوڑ ہوگا۔

این اے ایک سو بیس پر ن لیگ کے سردار ایاز صادق میدان میں ہیں، جن کے مقابلے پر آزاد امیدوار عثمان حمزہ کامیابی کیلئے پرُامید ہے۔

اسی طرح ایک سو اٹھائیس پر آئی پی پی عون چوہدری کو آزاد امیدوار سلمان ا کرم راجا کا سامنا ہے۔

یادرہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مضبوط امیدوار وزارتِ عظمیٰ کیلئے میاں نواز شریف ہیں جو لاہور اور مانسہرہ سے لڑرہے ہیں دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں جو لاڑکانہ اور لاہور سے لڑرہے ہیں اور وہی ان کے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔

ووٹوں کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا اور چھوٹا حلقہ :

قومی اسمبلی کا لاہور سے حلقہ این اے 118 رجسٹرڈ ووٹرز کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا حلقہ ہے جہاں کی آبادی 9 لاکھ 65 ہزار 233 ہے جبکہ وہاں پر ووٹرز کی تعداد 7 لاکھ 50 ہزار 407 ہے۔
قومی اسمبلی کا حلقہ این اے 51 جو مری اور راولپنڈی کے کچھ علاقوں پر مشتمل ہے، ووٹوں کے لحاظ سے دوسرا بڑا حلقہ ہے۔ یہاں پر ووٹوں کی کل تعداد 7 لاکھ، 16 ہزار 648 ہے۔ اس حلقے کی آبادی 8 لاکھ 53 ہزار 499 ہے۔ دوسرے نمبر پر بلوچستان کے حلقہ این اے 255 ہے جہاں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 5 لاکھ 27 ہزار 178 ہے۔
اس کے علاوہ ملک بھر سے 10 کے قریب حلقے ایسے ہیں جہاں ووٹرز کی تعداد 6 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
اس کے برعکس لاہور کا حلقہ این اے 124 پاکستان کا سب سے چھوٹا حلقہ ہے جہاں ووٹرز کی تعداد دو لاکھ 40 ہزار 292 ہے۔

الیکشن کمیشن :

ادھرپاک فوج و دیگر سکیورٹی ادارے پر امن الیکشن کے انعقاد کے لیے پر عزم ہیں، پاک فوج اور سکیورٹی ادارے کسی بھی نا گہانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں،ذرائع محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کہ پولنگ ڈے پر 91ہزار 33پولیس اہلکار تعینات کئے گئے ہیں جبکہ 24ہزار 109ایڈمن سٹاف، 14ہزار 821خواتین،14سرچر بھی تعینات ہیں ،دستاویز میں کہا گیا ہے کہ اپولیس کے 1ہزار 77کیو آر ایف اہلکار بھی ڈیوٹی پر مامور ہیں ،دستاویز کے مطابق برفباری والے علاقوں میں قائم 14سو 95پولنگ اسٹیشن کے لیے بھی انتظامات کیے گئے ہیں،

ضابطہ اخلاق جاری:

دوسری طرف الیکشن کمیشن پاکستان نے سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے لیے پولنگ ڈے کے لئے ضابطہ اخلاق جاری کر دیاہے ، الیکشن کمیشن نے عام انتخابات 2024 میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو ہدایت کی ہے کہ ضابطہ اخلاق قانون کے مطابق پولنگ کے دن پولنگ سٹیشن کے 400 میٹر کی حدود میں کسی قسم کی مہم ، ووٹرز کو ووٹ کے لئے قائل کرنے ، ووٹر سے ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے کی التجا کرنے اور کسی خاص امیدوار کے لئے مہم چلانے پر پابندی ہوگی۔

اسی طرح 100 میٹر کے اندر کسی خاص امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لئے ووٹرز کی حوصلہ افزائی یا اس کو ووٹ نہ ڈالنے کے لیے حوصلہ شکنی پر مشتمل نوٹس، علامات، بینرز یا جھنڈے لگانے پر مکمل طور پر پابندی ہوگی۔الیکشن کمیشن نے ہدایت کی ہے کہ سیاسی جماعتیں ، امیدواروں ، الیکشن ایجنٹ یا ان کے حمایتی دیہی علاقوں میں پولنگ اسٹیشن سے 400 میٹر کے فاصلے پر اور گنجان آبادی والے شہری علاقوں میں 100 میٹر کے فاصلے پر اپنے کیمپ لگاسکیں گے ۔

ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز، ریٹرننگ آفیسرز اور پولیس ، انتظامیہ شقوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہوں گے ، خلاف ورزی غیر قانونی فعل تصور کی جائے گی جس پر قانون کے مطابق سخت کارروائی ہوگی۔پولنگ کے اختتام کے ایک گھنٹے بعد غیر حتمی نتائج نشر کیے جائیں۔الیکشن کمیشن سے جاری اعلامیے کے مطابق چیئرمین پیمرا کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ پیمرا پولنگ کے دوران یقینی بنائے کہ میڈیا انتخابی عمل میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے اور میڈیا پر کسی قسم کی فیک نیوز نشر نہ ہو۔چیئرمین پیمرا کو جاری مراسلے میں کہا گیا کہ میڈیا کو آگاہ کیا جائے کہ عدلیہ کی آزادی اور قومی اداروں کے خلاف مواد کے ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان، خودمختاری اور سلامتی کے خلاف کوئی مواد نشر نہ کرے ۔خط میں کہا گیا کہ چیئرمین پیمرا الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کو یقینی بنائے اور کوئی ایسا مواد نشر نہ کیا جائے جس سے پولنگ کے دوران یا بعد میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو۔اس حوالے سے مزید ہدایت کی گئی کہ پیمرا الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کو یقینی بنائے اور میڈیا کو آگاہ کرے کہ قومی یکجہتی کے خلاف کوئی الزام یا بیان الیکٹرانک، سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر نشر نہ کیا جائے ۔پیمرا چیئرمین کو ہدایت کی گئی کہ الیکشن کے دن پرنٹ، الیکٹرانک یا ڈیجیٹل میڈیا پر انتخابات سے متعلق پولنگ اسٹیشنز پر کسی قسم کا سروے نہ کیا جائے ،

آج موسم کیسارہے گا؟

الیکشن کے دن موسم سرد اور خشک رہنے کی توقع ہے، پوٹھوہار ریجن میں شام اور رات کے اوقات میں ٹھنڈی ہوائیں چلنے کا امکان ہے،پاکستان ویدر آفس کے چیف میٹرولوجسٹ نے رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے پیش گوئی کی ہے کہ 8 فروری یعنی انتخابات کے دن ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم سرد اور خشک رہے گا

مزید پڑھیں :
راولپنڈ ی اسلام آباد میں بارش سے موسم خوشگوار، مری میں برفباری کا امکان

جس کے ساتھ پارہ 13 سے 14 ڈگری سینٹی گریڈ تک کم ہو سکتا ہے۔محکمہ موسمیات کی تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 8 فروری کو ملک کے مختلف علاقوں میں موسم سرد اور خشک رہے گا جبکہ بالائی علاقوں میں شدید سرد رہے گا۔چیف میٹرولوجسٹ سرفراز خان کا کہنا ہے کہ ملک کے بیشتر علاقوں میں موسم سرد اور خشک رہے گا، موسم 25 سے 26 ڈگری تک پہنچ جائے گا اور کم سے کم درجہ حرارت 13 سے 14 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہے گا۔تاہم گلگت بلتستان میں مطلع جزوی طور پر ابر آلود رہے گا۔ پوٹھوہار ریجن میں شام اور رات کے اوقات میں ٹھنڈی ہوائیں چلنے کا امکان ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق شمال مشرقی پنجاب میں صبح کے اوقات میں چند مقامات پر ہلکی دھند پڑنے کا امکان ہے۔ آج کم سے کم درجہ حرارت لیہہ میں -16 ڈگری سینٹی گریڈ – کالام میں -13، استور میں -8، مالم جبہ میں منفی 5، اور راولاکوٹ میں منفی 5 رہا۔

قیدیوں کے ووٹ ڈالنے کا عمل مکمل:

انسپکٹر جنرل (آئی جی) جیل خانہ جات کی نگرانی میں پنجاب کی 43 جیلوں کے 1500 قیدیوں نے پوسٹل بیلٹ کے ذریعے انتخابی عمل میں حصہ لیا۔

ووٹنگ کے طریقہ کار کو جیل کے سپرنٹنڈنٹس کی نگرانی میں سرانجام دیاگیا جنہوں نے کیمروں کے سامنے انتخابی عمل کو صاف شفاف بنانے میں بھرپورکرداراداکیا،

پولنگ مکمل ہونے کے بعد پوسٹل بیلٹ پیپرز کو فوری طور پر متعلقہ حکام کو روانہ کر دیا گیا۔

اس اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اہلکارمیاں فاروق نذیر نے تصدیق کی کہ قیدیوں کے پوسٹل ووٹوں کی گنتی کی جائے گی، جس کے نتائج مجموعی انتخابی نتائج میں حصہ ڈالیں گے۔

ای سی پی نے آئی جی جیل خانہ جات پنجاب کے توسط سے قیدیوں کو اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنے کا موقع فراہم کیا تھا، جوالیکشن میں شمولیت اور جمہوری اصولوں کے عزم کی مثال ہے۔

ووٹنگ کے عمل میں قیدیوں کی شمولیت پاکستان کی جمہوری اقدار کو برقرار رکھنے اور تمام شہریوں کی مساوی نمائندگی کو یقینی بنانے کے عزم کا ثبوت ہے۔
مزیدجانئے:
قومی اسمبلی کی 266سیٹوں پر کون کس کے مدمقابل ہے؟

این اے 1سے لیکراین اے 266تک کی مکمل تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

الیکشن 2024: کون کہاں جیتے گا؟