0

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس: اصل سوال تو عدلیہ کی آزادی کا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن

سپریم کورٹ آف پاکستان میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔ سماعت کی کارروائی براہِ راست نشر کی جا رہی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی فل کورٹ میں شامل ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ کیس قابل سماعت ہونے پر دلائل دے چکا ہوں، 3 سوالات اٹھائے گئے تھے جن کا جواب دوں گا، میں آرٹیکل 191 اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا، پارلیمنٹ کے ماسٹر آف روسٹر ہونے کے سوال پر دلائل دوں گا، اپیل کا حق دیے جانے پر دلائل دوں گا، فل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے سوال پر بھی دلائل دوں گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 14، 20، 22 اور 28 میں درج بنیادی حقوق پر عمل قانون کے مطابق ہوتا ہے، رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے، آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل191 میں لاء کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا، ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا، جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191 میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی، آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔

جسٹس منیب اختر اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ 1956ء کے آئین کے مطابق رولز کی منظوری صدر یا گورنر جنرل کی تھی، آپ کے مطابق پارلیمنٹ کو رولز میں رد و بدل کی اجازت ہے، آپ کی دلیل مان لی جائے تو اس سے پہلے سپریم کورٹ رولز کی منظوری پارلیمنٹ نے کیوں نہیں دی؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اختیار استعمال نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں سمجھا جاسکتا کہ پارلیمنٹ کا اختیار ختم ہو گیا، پارلیمان کا آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ کرنے کا مطلب اپنا اختیار سرنڈر کرنا نہیں، آرٹیکل191 میں قانون کا لفظ موجود ہے جس کے تحت ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر لاء بنا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی ہے، لاء کا لفظ آئین میں 200 بار استعمال ہوا تو کیا اس کا ایک ہی مطلب ہو گا؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون یا تو پارلیمنٹ بناتی ہے یا پھر جج میڈ لاء ہوتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل8 کہتا ہے ایسی قانون سازی نہیں ہو سکتی جو بنیادی حقوق واپس لے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 191 کے تحت پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اصل سوال تو عدلیہ کی آزادی کا ہی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ یہ ایکٹ عدلیہ کی آزادی کو سلب کر رہا ہے یا بڑھا رہا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اختیارات کی تقسیم کے اصول، عدلیہ کی آزادی کے نکات پر دلائل میں ان سوالات کے جواب دوں گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر عدلیہ کی آزادی کے خلاف نہیں ہے۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ مسٹر اٹارنی جنرل یہ لفاظ صرف لاء نہیں سبجیکٹ ٹو لاء ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل191 مختلف اور باقی جن آرٹیکلز کا حوالہ آپ دے رہے ہیں وہ مختلف ہیں، جن آرٹیکلز کا حوالہ آپ نے دیا ہے وہ بنیادی حقوق ہیں۔

واضح رہے کہ تمام درخواست گزاروں اور سیاسی جماعتوں کے دلائل بھی مکمل ہو گئے ہیں، پی ٹی آئی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں نے ایکٹ کی حمایت کی۔

 

اپنا تبصرہ بھیجیں