پنڈ دادن خان (بیورو چیف ملک ظہیر اعوان) 1965 اور 1971 کی جنگ کا گمنام ہیرو چوہدری محمد حیات المعروف شیر پاؤ ساکن جلال پور شریف تحصیل پنڈ دادن خان ضلع جہلم اج 75 سال کی عمر میں بھی اس نوجوانی والے جذبہ سے سرشار ہے جس نے زندگی میں ہمیشہ اگے بڑھنا سیکھا پیچھے ہٹنا نہیں اس گمنام ہیرو نے 1965 کی جنگ میں بھارتی جنگی بمبارطیارہ مار گرایا اور 1971 کی جنگ کے دوران تین سال تک بھارت کی جیل میں جنگی قیدی رہا جرات و بہادری اور جذباتی پن کی وجہ سے انہیں شدید نقصانات بھی اٹھانا پڑے لیکن انہوں نے ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا کیونکہ اس دنیا میں بعض ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جو مایوسیوں پریشانیوں حالات کے تقاضوں اور مصلحتوں کو خاطر میں نہیں لاتے ان کے سامنے صرف مقصد ہوتا ہے جس کو وہ ہر صورت میں حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اخر کار حاصل کر کے رہتے ہیں ایسے لوگوں کا عہدہ بڑا ہو یا نہ ہو لیکن وہ خود ضرور بڑے اور عظیم ہوتے ہیں اس گمنام ہیرو کا شمار بھی ان لوگوں میں ہی ہوتا ہے، دو جنگوں کے اس گمنام ہیرو چوھدری محمد حیات نے اوصاف کو بتایا کہ ابھی قرارداد پاکستان منظور نہیں ہوئی تھی اس خطے کے مسلمان منٹو پارک میں ہونے والے تاریخی جلسے کی تیاریاں کر رہے تھے میرے والد بابو عبداللہ خان بھی سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتے تھے وہ محکمہ ٹیلی گراف میں سب انسپکٹر تھے 7 فروری 1940 کو مسلمانوں کی بھرپور حمایت کرنے پر انہیں نوکری سے برطرف کر دیا گیا میری پیدائش بھی اس سال ہی ہوئی میرے والد مسلسل ملازمت کی بحالی کی کوششیں کرتے رہے ان کی 21 سالہ ملازمت پر پانی پھیر دیا گیا میں 1959میں فوج میں بھرتی ہوا 1960 میں افغانستان کے محاذ پر ایک معرکے میں حصہ لیا وہاں اچھی کارکردگی پر مجھے ایوارڈ سے نوازا گیا 1965 کی جنگ میں کھیم کرن اور چونڈا محاذ پر لڑا اور اس دوران میں نے بھارتی بمبار طیارہ مار گرایا کئی ٹینک اور کئی چوکیاں تباہ کیں اور کئی ہندوؤں کو واصل جہنم کیا کئی معرکے سر کیے فخر ہند ڈویژن کے بکتر بند ٹینک ناکارہ کر کے سیالکوٹ محاذ پر دشمن کی پیش قدمی روک دی دشمن کی پوسٹیں تباہ کر کے ابزرویشن افیسر کوہلاک کر دیا سینکڑوں ہندو افیسر اور ہندو لٹیرے ہلاک کیے سیالکوٹ پسرور روڈ اور چونڈا ازاد کرا لیے اس موقع پر اگر مجھے شہادت نصیب ہو جاتی تو مجھے نشان حیدرسے نوازا جانا تھا لیکن بقید حیات کے باعث مجھے ستارہ جرات دینے کا اعلان ہوا لیکن پھر یہ کارکردگی کسی اور کے کھاتے میں ڈال دی گئی میں اس وقت لائس نائیک تھا اور پھر مجھے تغمہ جنگ عطا کیا گیا 1971 کی شعلوں بھری جنگ میں رضا کارانہ طور پر ائی ایس ائی میں شامل ہو کر مشرقی پاکستان پہنچا مجھے شہر راج شاہی بھیجا گیا اور مجھے ڈھاکہ سے ہتھیار لانے کا فریضہ سونپا گیا ڈھاکہ سے راج شاہی تک اتے اتے میں نے ہندوؤں اور ماہنی باہنی کا مقابلہ کیا اوراسلحہ سمیت واپس ایا میں راج شاہی میں تھا جب ہمیں سرنڈر کرنے کا حکم ملا پھر ہم لوگ قیدی بن کر بھارت کے دھانہ اور ساگر کیمپ میں لائے گئے جہاں پر ہم سے انتہائی ناروا سلوک روا رکھا گیا کھانےکے لیے چنے کی دال دی جاتی جب کہ ہمیں جنیوا کنونشن معاہدے کے تحت جنگی قیدیوں کی خوراک ملنی چاہیے تھی جو عام فوجیوں کو ملتی ہے جس کا میں نے صوبےدار رام سنگھ سے مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہ تم لوگ جنگی قیدی ہو بحر کیف اس کے بعد ہمیں پورا راشن ملنا شروع ہو گیا تا ہم ہمیں طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائی جاتیں مسلسل سورج کی طرف دیکھنے کو کہا جاتا دوران قید جس وقت ایک افیسر سری رام نے مجھے گالی دی تو میں نے تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا
اس کے سوال کا جواب میں نے تھپڑ کی صورت میں دیا میں چونکہ رضاکارانہ طور پر ائی ایس ائی میں گیا تھا اور میں دوران قید انڈیا میں جعلی کوارٹر ماسٹرحوالدار بنا رہا قران مجید دوران قید پڑھا نماز پنجگانہ کی ادائیگی کی جس کا اج تک پابند ہوں میرا یہ شیوہ رہا کہ میں نہ اپنوں کے اگے جھکا اور نہ ہی غیروں کے اگے جھکا بھارت میں دوران قید مجھے شیر پاؤ کا لقب دیا گیا جس کے بارے اندرا گاندھی نے مجھ سے سوال کیا کہ اپ کا نام محمد حیات ہے اور اپ کو شیر پاؤ کہا جاتا ہے جس پر میں نے اندرا گاندھی کو بتایا کہ ہمارے ملک میں پیپلز پارٹی کا ایک بہادر شخص محمد حیات خان شیر پاؤ ہے جس کی وجہ سے مجھے یہاں شیر پاؤ کے نام سے پکارا جاتا ہے تا ہم میرا ایکس ارمی نمبر ۱۲۴۸۲۸۴1248284 پاکستان ارٹلری ھے میرا چیف اف ارمی سٹاف سے مطالبہ ہے کہ میرے کیس کی تحقیقات کی جائیں دریں اثناء پاک ارمی میں زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارنے کے بعد جب ریٹائرڈ منٹ پر گھر ایا تو یہاں کے دو مرحومین عسکری اور سیاسی وڈیروں نے خود اور اپنے کار خاص لوگوں کی وساطت سے میری زندگی اجیرن کر کے رکھ دی سب سے پہلے علاقہ کے اشتمال کے نام پر ہماری ملاح برادری کی زمینوں پر قبضہ کیا لیکن کچھ زمین کا قبضہ میں نے واپس لے لیا پھر میرے بیٹے کو شادی والے دن قتل کروایا میرے نواسے کو قتل کروایا مکانوں اور زمینوں پر قبضے کروائے لیکن پھر بھی کسی کے اگے جھکا نہیں 1965 کی جنگ کا گمنام ہیرو اور 1971 کی جنگ کا قیدی مصائب میں گھرنے کے باوجود ثابت قدم رہا لیکن اج دکھی ضرور ہے کیونکہ میری قربانیوں کا مجھے یہ صلہ ملا ہے کہ اج ڈپٹی کمشنر جہلم ،اسسٹنٹ کمشنر پنڈ دادن خان حتی کہ حلقہ کا پٹواری بھی میری بات تک سننے کو تیار نہیں
0