پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وفاقی وزارت داخلہ نے ایک ماہ قبل ملک بھر کے اہم شہروں میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال پر قابو پانے کے لیے اسلام آباد، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں فوج تعینات کرنے کی منظوری دی تھی۔
وزارت کے 10 مئی کے نوٹیفکیشن کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام آباد کمشنر کے دفتر سے آج جاری کردہ ایک مراسلے میں کہا گیا کہ وفاقی دارالحکومت میں فوج کو آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت امن و امان برقرار رکھنے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔
اس مراسلے میں کہا گیا کہ اب جب کہ امن و امان کی صورتحال قابو میں ہے، انتظامیہ نے اسلام آباد میں صورتحال کو اطمینان بخش قرار دی ہے، عوامی مفاد میں 10 مئی کا نوٹیفکیشن واپس لیا جائے۔
اس کے علاوہ محکمہ داخلہ پنجاب کی طرف سے وزارت کو ایک اور خط میں کہا گیا کہ وزارت داخلہ نے صوبے میں آرٹیکل 245 کے ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت سول اتھارٹیز کی مدد سے صوبے بھر میں امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوج تعیناتی کی منظوری دی تھی۔
9 جون کو جاری مراسلے میں کہا گیا کہ براہ مہربانی فوری طور پر پاکستان آرمی کے دستوں کو واپس بلا لیا جائے۔
واضح رہے کہ 9 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے القادر ٹرسٹ کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے جبکہ فوجی چھاونیوں، جنرل ہیڈکوارٹرز راولپنڈی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دیگر دفاتر کے سامنے بھی متعدد مظاہرے ہوئے تھے۔
ان مظاہروں پر قابو پانے اور ملک بھر کے اہم شہروں میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال پر قابو پانے کے لیے وفاقی وزارت داخلہ نے اسلام آباد، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں پاک فوج تعینات کرنے کی منظوری دی تھی، وزارت داخلہ کی طرف سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت سول پاور کی مدد سے پنجاب بھر میں امن و امان کی صورت حال برقرار رکھنے کے لیے فوج کے دستوں کی تعیناتی کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے۔
نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ حکومت نے آئین کے آرٹیکل 245 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے سیکشن 4 (3) (ٹو) کے تحت دیے گئے اختیارات استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔