اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی خصوصی بینچ نے نواز شریف کی ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس پر سزا کے خلاف اپیل کی بحالی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔
نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڈ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت نے توشہ خانہ کیس میں نواز شریف کے وارنٹ واپس لے لیے ہیں اور مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرلی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ہمارے پاس دو الگ الگ درخواستیں ہیں، دونوں درخواستیں سزا کے خلاف اپیلیں بحال کرنے سے متعلق ہیں اور ہمیں ان پر نوٹسز جاری کرنے ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ درخواستوں کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ درخواست گزار وجہ بتائے کہ وہ کیوں عدالت سے غیر حاضر رہا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اعظم نذیر تارڈ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم بس قانون کے مطابق چلنا چاہتے ہیں، آپ اس میں ماہر ہیں، جس پر اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ آپ سے ہم سیکھتے ہیں، آپ نے اتنے لینڈ مارک فیصلے دیے ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آرٹیکل 10- اے اپنی جگہ لیکن عدالت سے غیر حاضر ہونے کی وجوہات بتانا ہوں گی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آپ کی غیر حاضری جان بوجھ کر یا بدنیتی پر مبنی نہیں تھی۔
اعظم نذیر تارڈ نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی تھی، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ آپ نے اس میں ایک قباحت کی ہے، معاملات اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر التوا تھے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے وکیل سے سوال کیا کہ اگر کوئی اور ہائی کورٹ باہر جانے کی اجازت دیتی ہے تو کیا یہ ہو سکتا ہے، جسٹس میاں گل حسن نے سوال کیا کہ جب اپیلوں کی بحالی کی درخواستیں دائر ہوں تو عدالت کس قانون کی پیروری کرے۔
چیف جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ یہ روٹین کا معاملہ نہیں، یہ شوکاز کا معاملہ ہے، ہم دوسرے فریق کو نوٹس کریں گے، وہ جواب دیں گے، پھر آپ آ کر وجوہات بتا دیجیے گا، عدالت کا آپ کی وجوہات سے مطمئن ہونا ضروری ہے۔
اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ آپ ہماری حفاظتی ضمانت میں توسیع کر دیں تاکہ ہم مزید تیاری کے ساتھ آ سکیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پراسیکیوٹر جنرل نیب سے پوچھا کہ آپ کیا کہتے ہیں اس حوالے سے، جس پر نیب کے پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ہم نے اپیلوں کی بحالی سے متعلق درخواستیں پڑھی ہیں اور ہمیں ان درخواستوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہ اکہ اگر حفاظتی ضمانت میں توسیع کردی جائے تو ہمیں اعتراض نہیں، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ کیا یہ وہی نیب ہے، جس پر عدالت میں قہقہے بلند ہوئے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میں ان مقدمات میں 5 سال بعد واپس آیا ہوں، 5 پانچ سال بعد سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں کیا یہ وہی نیب ہے،کیا نیب کہہ رہی ہے کہ کرپٹ پریکٹسز کے الزامات برقرار رہیں لیکن ملزم کو چھوڑ دیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم چیئرمین نیب سے پوچھ لیتے ہیں کہ آپ پبلک ٹائم کیوں ضائع کر رہے ہیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر مخالفت نہیں کرتی تو نیب ریفرنسز واپس ہی کیوں نہیں لیتے۔
نواز شریف کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے اس وقت مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے۔
عدالت نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ شریعت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے دوبارہ پوچھتے ہیں کیا آپ گرفتار کرنا چاہتے ہیں، نواز شریف کی ضمانت میں توسیع پر کوئی اعتراض ہے، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ گرفتار نہیں کرنا چاہتے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور پراسیکیوٹر جنرل نیب کے درمیان مکالمہ ہوا اور ان سے پوچھا کہ آپ کوئی واضح پوزیشن لیں، یہ آپ کے ادارے کے لیے بہت بہت برا ہے، ہمیں آئندہ سماعت پر اپنی واضح پوزیشن بتائیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے پراسیکیوٹر سے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو کل سربمہر لفافے میں ہمیں اپنے مؤقف سے آگاہ کر دیں۔
اعظم نذیر تارڈ نے کہا کہ وقت تھوڑا زیادہ دیجیے گا، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ معاملے کو نہیں لٹکائیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی سزا کے خلاف درخواستیں بحال کرنے کی درخواستوں پر نیب کو نوٹس جاری کیا اور جمعرات 26 اکتوبر تک کے لیے ملتوی کر دی۔
عدالت نے قائد مسلم لیگ (ن) نواز شریف کی حفاظتی ضمانت میں بھی جمعرات تک توسیع کردی۔
پسِ منظر
واضح رہے کہ 19 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔
بعد ازاں 21 اکتوبر کو نواز شریف نے وطن واپسی پر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور العزیزیہ ریفرنسز میں اپنی سزاؤں کے خلاف زیر التوا اپیلوں کی بحالی کے لیے درخواستوں پر دستخط کردیے تھے۔
یاد رہے کہ نواز شریف کو 2018 میں العزیزیہ ملز اور ایون فیلڈ کرپشن کیسز میں سزا سنائی گئی تھی، العزیزیہ ملز ریفرنس میں انہیں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں 7 برس کے لیے قید کردیا گیا تھا تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہیں طبی بنیادوں پر لندن جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔
نواز شریف جیل میں صحت کی خرابی کے بعد نومبر 2019 میں علاج کی غرض سے لندن روانہ ہوگئے تھے لیکن وہ تاحال پاکستان واپس نہیں آئے جبکہ ان کے خلاف پاکستان میں متعدد مقدمات زیر التوا ہیں۔
نواز شریف کی لندن روانگی سے قبل شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئےاس بات کی یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ 4 ہفتوں یا ان کے ڈاکٹر کی جانب سےان کی صحت یابی کی تصدیق کے بعد وہ پاکستان واپس آجائیں گے۔
بعد ازاں گزشتہ سال اگست میں نواز شریف نے برطانوی محکمہ داخلہ کی جانب سے ’طبی بنیادوں پر‘ ان کے ملک میں قیام میں توسیع کی اجازت دینے سے انکار پر امیگریشن ٹربیونل میں درخواست دی تھی۔
جب تک ٹریبونل نواز شریف کی درخواست پر اپنا فیصلہ نہیں دے دیتا نواز شریف برطانیہ میں قانونی طور پر مقیم رہ سکتے ہیں، ان کا پاسپورٹ فروری 2021 میں ایکسپائر ہوچکا تھا تاہم پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت بننے کے بعد ان کو پاسپورٹ جاری کردیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ 2020 میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، عبدالغنی مجید اور انور مجید پر فرد جرم عائد کی تھی جب کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا تھا۔