صدر مملکت عارف علوی نے آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دیے۔ ذرائع قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق آرمی ایکٹ 31 جولائی کو مشترکہ اجلاس میں منظور ہوا تھا، یہ بل صدر کو توثیق کے لیے یکم اگست کو ارسال کیا گیا تھا۔
گزشتہ قومی اسمبلی نے مدت ختم ہونے سے پہلے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی منظوری دی تھی.
آفیشل سیکریٹ ایکٹ
آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل کے مطابق کوئی شخص جو جان بوجھ کر امن عامہ کا مسئلہ پیدا کرتا ہے، ریاست کے خلاف کام کرتا ہے، ممنوعہ جگہ پر حملہ کرتا یا نقصان پہنچاتا ہے جس کا مقصد براہ راست یا بالواسطہ دشمن کو فائدہ پہنچانا ہے تو وہ جرم کا مرتکب ہوگا، خلاف قرزی کی صورت میں 3 سال قید، 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوں گی۔
آرمی ایکٹ
آرمی ایکٹ کے مطابق کوئی بھی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ، استعفے یا برطرفی کے دو سال بعد تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا جبکہ حساس ڈیوٹی پر تعینات فوجی اہلکار یا افسر ملازمت ختم ہونے کے 5 سال تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا۔
آرمی ایکٹ سیکشن 26 اے میں ایک نئے سیکشن کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے مطابق سرکاری حیثیت میں حاصل شدہ معلومات جو پاکستان اور افواج کی سکیورٹی اور مفاد سے متعلق ہو افشا کرے گا اسے پانچ سال قید بامشقت تک کی سزا ہو سکے گی، البتہ آرمی چیف یا بااختیار افسر کی جانب سے منظوری کے بعد غیر مجاز معلومات دینے پر سزا نہیں ہو گی، راز افشا کرنے والے شخص کو آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت نمٹا جائے گا۔