زندگی ایک سفر ہے اور انسان عالم بقا کی طرف رواں دواں ہے۔ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کو منزل کے قریب تر کرتا ہے۔عقل مند مسافر اپنے کام سے فراغت کے بعداپنے گھر کی طرف واپسی کی فکر کرتے ہیں۔ کسی کو بھی موت پر لکھنا خاصہ مشکل اور تکلیف دہ مرحلہ ہے بلا شبہ موت ایک اٹل حقیت ہے اور موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے کہ مرنے والے کے ساتھ کوئی مر نہیں جاتا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مرنے والے یادوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔کسی کی بھی موت کا نوحہ لکھتے ہوئے خود مرنا پڑتا ہے۔ انکی باتوں اور یادوں کے چراغ جلانے پڑتے ہیں اور درد کا روگ پالنا پڑتا ہے۔حافظ امتیاز بیگ کو مرحوم لکھتے ہاتھ کانپنے لگے۔دل مان نہیں رہا کہ مرحوم کو مرحوم لکھوں آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات عبارت مکمل کرنے میں آڑے آرہی ہے۔کیونکہ یہ موت اس کی ہے کرے جس پہ زمانہ افسوس۔موت برحق ہے۔ موت سے کوئی بھاگ نہیں سکتایہ ہر بشر کو اسکی آخری ٓرام گاہ تک لے جاتی ہے۔ وہ دبے پاؤں آتی ہے اورچپکے سے ہم سے ہمارے پیاروں کو چھین کر لے جاتی ہے۔حافظ امتیاز کی موت کی خبر نے فضا کو سوگوار کر دیا۔ ہر چہرہ اداس اور ہر آنکھ اشکبار یا نمدیدہ ہے۔ کون کس کی کس سے تعزیت کرے ہر دوست تعزیت کا مستحق ہے۔کب کس کی تعزیت کرنے پڑے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ”آج وہ گئے،محسوس ہوتا ہے کل ہماری باری ہے“
حافظ امتیاز کی تدفین ہو چکی۔انکی نماز جنازہ ادا کرنے تک راقم کے دل و دماغ میں بے یقینی کی کیفیت تھی۔ کسی اپنے کی موت کے صدمے سے دوچار ہونا ایک تکلیف دہ تجربہ ہے جس سے جلد یا بدیر ہر انسان کو گذرنا پڑتا ہے۔ دکھ، تکلیف اور غم تو کسی چیز کے کھو جانے سے بھی ہوتا ہے لیکن حافظ امتیاز کی موت کی کیفیت الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ اگر کوئی شخص شدید بیمار ہو اور عرصہ دراز سے بیماری سے لڑ رہا ہوتو دل و دماغ میں اسکی موت کا خدشہ قائم ہو جاتا ہے اور کسی حد تک ذہن تیار رہتا ہے۔ حافظ امتیاز تو اتنے بیمار بھی نہیں تھے۔ انہیں شوگر کا عارضہ تو لاحق تھا۔ مگر یہ ایسی بیماری تو نہیں کہ جس نے اتنا جلدی ہم سے حافظ چھین لیا۔
حافظ امتیاز سے تعلق ویسا ہی تھا جیسا بھائیوں کے درمیان ہوا کرتا ہے۔ وہ راقم سے بڑے تھے اور انہوں نے کبھی بھی عمر کے اس فرق کو اپنی زندہ دل طبیعت اور ہنس مکھ فطرت کی وجہ سے محسوس ہونے دیا۔ بلا شبہ وہ جہلم کی صحافت کا بھی امتیاز تھے۔حافظ امتیاز کے جنازہ میں شریک ہوناایسا تکلیف دہ مرحلہ تھا جس کی شدت کو سہنا آسان نہیں تھا لیکن اپنے پیارے کو اس عارضی دیناسے ہمیشہ کے لیے رہنے والی اخروی دنیا کے سفر میں خیر باد کہنے کا اور کوئی طریقہ بھی نہیں تھا۔ حافظ امتیاز کی نا گہانی اور بے وقت موت سے پیدا ہونے والی یہ بے یقینی انکی تدفین کے بعد اب بے بسی میں بدل چکی ہے۔
ہم سب کو حافظ امتیاز کی موت کا دکھ کم ہونے میں وقت لگے لگا اور اسے جلدی دور نہیں کیا سکتا۔مگر مولا علی علیہ اسلام کا ارشاد ہے کہ ”صبر کی توفیق مصیبت کے برابر ملتی ہے“ اس لیے یہ بھی یقین ہے کہ قدرت حافظ امتیاز کی یوں اچانک اور بے وقت موت کا صدمہ جھیلنے کی طاقت بھی عطا کرے گی۔ اس قیامت کی گھڑی میں حافظ امتیاز کے اہل قبیلہ اور اہل خانہ کو صبر نصیب ہو جائے تو اس میں یقینا ہمارا کوئی کمال نہیں ہو گا بلکہ یہ خالق حقیقی کا کرم ہی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین
0