وزارت دفاع نے خصوصی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔
وزارت دفاع کی جانب سے دائر درخواست میں ملزمان کا ٹرائل خصوصی عدالتوں میں نہ کرنے کو فیصلہ کالعدم قرار دینے اور وزارت دفاع کی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی دفعات بھی بحال کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
وزارت دفاع نے استدعا کی ہے کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم قرار دی گئی سیکشن 59(4) بھی بحال کی جائیں اور اپیلوں پر حتمی فیصلے تک خصوصی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کیخلاف حکم امتناع جاری کیا جائے۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جن درخواستوں پر فیصلہ دیا وہ ناقابل سماعت تھیں، آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات کالعدم ہونے سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
گزشتہ روز نگراں سندھ حکومت نے بھی سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
سندھ حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل روکنے کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی، اور اپیل پر فیصلے تک سپریم کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی بھی استدعا کی۔
سندھ حکومت کی درخواست میں کہا گیا کہ فوجی تنصیبات پر حملوں کے ملزمان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی ہونا چاہیے، سپریم کورٹ نے قانون اور حقائق کا درست جائزہ نہیں لیا۔
درخواست میں سندھ حکومت نے استدعا کی کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی کالعدم دفعات بحال کی جائیں۔
نگراں صوبائی حکومت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ملزمان نے خود درخواست دی کہ ان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی کیا جائے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 23 اکتوبر کو فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دیا تھا۔ اور 6 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے لکھا کہ آرمی ایکٹ کی سیکشن ڈی ٹو کی ذیلی شقیں ایک اور دو کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔