0

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، وکلا کو 25 ستمبر تک تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر سماعت جاری
سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ پر فل کورٹ سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پہلے عدالتی دن پر فل کورٹ کی سربراہی کی، سپریم کورٹ کے 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت کی جس کو براہ راست ٹی وی پر دکھایا گیا۔

3 اکتوبر تک فل کورٹ سماعت ملتوی

وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج نہیں لگتا کہ سماعت مکمل ہو، میں نے اپنے دونوں سینیئر ججز سے مشاورت کی، کیا آپ راضی ہیں کہ کیس کو پارٹ ہرڈ کر رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے بتایا انہیں سندھ طاس معاہدے سے متعلق مقدمےکےلیے ویانا جانا ہے۔

کھلی عدالت میں ہی چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا فیصلہ لکھوایا اور حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزاروں اور اٹارنی جنرل کو بینچ کے سوالات کے جواب دینا ہیں، چیف جسٹس نےکہا پریکٹس اینڈپروسیجر کے ذریعے درپیش چیلنج پر اپنے دو سینیئر ججز سے مشاورت کریں گے، جسٹس سردارطارق اورجسٹس اعجازالاحسن نے مانا کہ ہم اپنےطورپرپریکٹس اینڈپروسیجر طے کریں گے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیاکہ تمام فریقین 25 ستمبر تک جواب جمع کرا دیں، عدالت کے سامنے فل کورٹ تشکیل کی درخواست کی گئی تھی، درخواست گزاروں نے فل کورٹ پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور سپریم کورٹ نے درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دیا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ اپنے ساتھی ججوں سے مشورہ کر کے بینچ بنا رہا ہوں، آپ سب برا نہ مانیں تودلائل مختصراورجامع رکھا کریں۔

عدالت نے پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ درخواست منظور کرکے نمٹا دی اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

آج کی سماعت

دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ 9 درخواستیں ہیں اور وکلا کون کون ہیں؟ خواجہ طارق رحیم صاحب آپ دلائل کا آغاز کریں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا دلائل دوبارہ سے شروع ہوں گے کیونکہ نیا بینچ تشکیل دیا گیا ہے، فل کورٹ بنانے کی 3 درخواستیں تھیں جن کو منظور کر رہے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا فل کورٹ اجلاس میں فل کورٹ سماعت کرنے کی منظوری دی گئی، عوام ہم سے 57 ہزار کیسز کا فیصلہ چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب (خواجہ طارق رحیم) ہم آپ کو نہیں کہتے کہ کم بولیں مگر آپ بات کو جامع رکھیں، ماضی کو بھول جائیں ابھی کی بات کریں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ سیکشن 5 کا کیا ہوگا؟ کیا ایک پارٹی کی وجہ سے ایکسرسائز نہیں ہوگی؟

درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم کے دلائل

وکیل خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنا رکھے تھے لیکن پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کو سپورٹ کرتے ہیں؟ جبکہ چیف جسٹس نے پوچھا آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں؟

خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کے شیڈول 4کے مطابق سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے ضوابط خود بناتی ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا سپریم کورٹ کو یہ اختیار آئین میں دیا گیا یا قانون میں؟ وکیل خواجہ طارق رحیم کا کہنا تھا میں سوالات نوٹ کر رہا ہوں جواب بعد میں دوں گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا خواجہ صاحب آئینی شقوں کو صرف پڑھیں، تشریح نہ کریں جبکہ جسٹس اطہرمن اللہ نے پوچھا کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا؟

چیف جسٹس پاکستان نے خواجہ طارق رحیم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا خواجہ صاحب آپ جو باتیں کر رہے اس پر الگ درخواست لے آئیں، ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں، خواجہ صاحب میں آپ کیلئے معاملات آسان بنانا چاہ رہا ہوں لیکن لگتا ہے آپ ایسا نہیں چاہ رہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اختیارات اور طاقت کا ذکر قانون میں نہیں جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا سپریم کورٹ کا اپنا اختیار ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرے، کیا آپ کے مطابق سپریم کورٹ رولز 1980 آئین سے متصادم ہیں، مستقبل کی بات نہ کریں دلائل کو حال تک محدود رکھیں، مستقبل کی قانون سازی کیلئے درخواست دائرکر دیں۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا آرٹیکل 184/3 جوڈیشل پاور ہے، عدالت کو اپنے اختیارات استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ خواجہ صاحب آپ کی بحث کیا ہے؟ مجھے آپ کی یہ بات سمجھ آئی ہے کہ اگر یہ سب فل کورٹ کرے تو درست ہے، اگر پارلیمنٹ یہ کام کرے تو غلط ہے، میں یہ سمجھا ہوں آپ کی بات سے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو غیر مؤثرکیا جاسکتا ہے؟ جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کیا قانون سازی سے چیف جسٹس کی پاورزکو ختم کیا گیا یا پھر سپریم کورٹ کی؟

وکیل خواجہ طارق کا کہنا تھا آئینی مقدمات میں کم سے کم 5 ججزکے بینچ کی شق بھی قانون سازی میں شامل کی گئی ہے، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا جس شق پرآپ کو اعتراض ہے کہیں کہ مجھے اس پر اعتراض ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے خواجہ طارق سے پوچھا کہ چیف جسٹس کے پاس بینچ بنانے کا لامحدود اختیار ہو تو آپ مطمئن ہیں؟ جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آپ یہ تو بتائیں کہ کس آئین کے آرٹیکل سے ایکٹ متصادم ہے؟

دوران سماعت جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا پارلیمنٹ کہتی ہے کہ 5 ججز سے کم کیس نہیں سن سکتے، اگرکل پارلیمنٹ کہے کہ فلاں کیس کو 7 ججز نہیں سنیں توکیا ہو گا؟ امریکا میں رائٹ آف ابارشن کا مسئلہ بنا ہوا ہے، یہ سپریم کورٹ ہے جس کا کام آئین کا دفاع کرنا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کے دلائل سے محظوظ نہیں ہو پا رہا جبکہ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا عدلیہ کی آزادی صرف بیرونی نہیں بلکہ اندرونی بھی ہونی چاہیے، عدلیہ کو اندر سے مضبوط ہونا چاہیے، صرف چیف جسٹس کے پاس بینچزکی تشکیل کا اختیار ہونا توغلط ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا باہر کے ممالک میں بیلٹ سے بینچ بنتے ہیں، وہاں چیف کے پاس بینچ تشکیل دینے کے اختیارکا تصورتک نہیں، یہ کیا بات ہوئی چیف اپنے پاس درخواست رکھے رہے اوربینچ نہ بنائے۔

درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی کا کہنا تھا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے جو غیرآئینی ہے جس پر جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا آرٹیکل 141 کے مطابق پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے۔

وکیل امتیازصدیقی کا کہنا تھا پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا آپ ہمیں بتائیں کہ کوئی ایسا قانون ہو سکتا ہے جو عدلیہ کو ریگولیٹ کرے؟

امتباز صدیقی کا کہنا تھا عدالتی دائرہ سماعت اور اختیارات سے متعلق براہ راست کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا، پارلیمنٹ سپلیمنٹری قانون سے صرف عدلیہ کو کسی معاملے پر سفارش کر سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہ سپریم کورٹ ہے جس کا کام آئین کا دفاع کرنا ہے، ہر بنایا جانے والا قانون قابل عمل نہیں ہوتا جبکہ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے تو کیا پارلیمنٹ نہیں ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا سپریم کورٹ قانون سے بالا ہے یہ کہاں لکھا ہے؟ اس میں دو بنیادی باتیں ہیں، اس فیصلے میں جو لکھا ہے وہ آپ کی دلیل کی نفی کر رہا ہے، ہمیں ڈرائیں مت صرف دلائل دیں، وکیل کاکام ہے بتائے اس فیصلے کے فلاں صفحے پریہ لکھا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی کا کہنا تھا اگر مجھے نہیں بولنے دیا جائے گا اور تضحیک ہوگی تو میں جا رہا ہوں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے کہ آپ عوام کا خیال کریں، امتیاز صدیقی نے جواب دیا میں عوام کی ہی بات کر رہا ہوں، مجھے بات ہی نہیں کرنے دی جا رہی تو میں چلاجاتا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان نے درخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کی مرضی ہے جانا چاہتے ہیں تو جائیں ورنہ موجودہ کیس تک محدود رہیں، نظرثانی اپیل نے تو سپریم کورٹ کے اختیارکوبڑھا دیا ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے آپ کی دلیل سے اتفاق کروں اور درخواست مسترد کر دوں۔

اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں بہت کچھ غیرآئینی ہو رہا ہے، کیا ملک میں جو کچھ غیر آئینی ہو رہا ہے وہ 184/3 کے اندر آئےگا؟

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف اپنا تحریری جواب اٹاری جنرل کے ذریعے عدالت میں جمع کرایا ہے جس میں وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرنےکی استدعا کی ہے۔

یاد رہے سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر 13 اپریل کو عملدرآمد روکا تھا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ مفاد عامہ کے مقدمات میں چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کرنے سے متعلق ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق ازخود نوٹس لینے کا فیصلہ چیف جسٹس اور دو سینئیر پر مشتمل کمیٹی کر سکے گی۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف لیا تھا اور حلف لینے کے بعد پہلا مقدمہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رواں برس اپریل میں کسی بھی آئینی مقدمے کے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا جب تک سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ نہیں ہوتا وہ کسی بینچ کا حصہ نہیں بنیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں