0

سائفر کیس کی اٹک جیل میں سماعت کیخلاف عمران خان کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

عمران خان
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل منتقل کرنے کے نوٹیفکیشن کے خلاف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل کرنے کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے شیر افضل مروت کی عدم موجودگی کے باعث سماعت میں وقفہ کردیں، وکیل شیر افضل مروت کے معاون وکیل نے کہا کہ مروت صاحب دوسری عدالت میں ہیں، آجائیں گے، میری استدعا ہے پراسیکیوٹرز دلائل جاری رکھیں، میں یہاں موجود ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے نہیں ہوتا، شیر افضل مروت صاحب کو بلا لیں ، معاون وکیل نے کہا کہ کل بھی ٹرائل کورٹ میں پراسیکویشن نے کہا کیس ہائی کورٹ میں ہے تو وہاں کیس 14 ستمبر تک چلا گیا۔

پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، وہاں کیس اس لیے ملتوی ہوا کیونکہ شریک ملزم کی ضمانت کا کیس 14 تک گیا ہوا تھا۔

اس دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت عدالت میں پیش ہوئے اور وزارت قانون کے نوٹی فکیشن کو عدالت کے سامنے پڑھا، وکیل نے کہا کہ وزارت قانون نے کس قانون، کس اختیار کے تحت عدالت اٹک جیل منتقل کی، اسلام آباد سے ٹرائل کیسے پنجاب میں منتقل ہو سکتا ہے ؟

وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ ٹرائل کی دوسرے صوبے منتقلی قانونی طور صرف سپریم کورٹ کر سکتی ہے، چیف کمشنر یا سیکریٹری داخلہ کا اختیار نہیں کہ وہ ٹرائل دوسرے صوبے منتقل کریں، سماعت کا مقام تبدیل کرنے کے پیچھے بدنیتی ہے۔

وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ سماعت کا مقام تبدیل کرنے کے نوٹی فکیشن کا مقصد چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھنا تھا، ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ نوٹی فکیشن کس قانون کے تحت جاری کیا گیا، آفیشل سیکریٹ کے تحت سویلین کا ٹرائل اسپیشل کورٹ میں ہوتا ہے، اسلام آباد سے کسی دوسرے صوبے میں ٹرائل منتقل کرنے کا اختیار صرف سپریم کورٹ کا ہے۔

وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ اسلام آباد الگ سے خود مختار علاقہ ہے، کسی صوبے کی حدود میں نہیں آتا، کسی بھی عدالت کی سماعت کا مقام تبدیل کرنے کا طریقہ کار قانون میں واضح ہے ، سماعت کا مقام تبدیل کرنے کے لیے متعلقہ عدالت کے جج کی رضا مندی بھی ضروری ہوتی ہے۔

وکیل شیر افضل مروت نے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں نہیں رکھا جاسکتا تھا، اگر ٹرائل کی تبدیلی کرنی تھی تو ان کو ٹرائل جج سے پوچھنا تھا لیکن نہیں پوچھا گیا۔

وکیل شیر افضل مروت نے مؤقف اپنایا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھنے کی کوئی وجہ نہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس میں ضمانت ہو چکی، چیئرمین پی ٹی آئی اس وقت جوڈیشل حراست میں ہیں۔

اس کے ساتھ ہی جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کے خلاف درخواست پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے کہا کہ جیل ٹرائل سے متعلق نوٹی فکیشن ایک دفعہ کے لیے تھا، نوٹی فکیشن جب ایک دفعہ کے لیے تھا تو ان کی پٹیشن غیر موثر ہو چکی، رولز آف بزنس میں وزارت قانون کے پاس نوٹی فکیشن جاری کرنے کا اختیار ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت قانون نے صرف این او سی جاری کیا تھا، سائفر کیس میں عدالت کے مقام کی تبدیلی صرف ایک بار کے لیے تھی۔

عدالت نے وزارت قانون کے نوٹی فکیشن کی وضاحت طلب کر رکھی تھی جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے معلومات لے کر عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ 30 اگست کو سائفر کیس کی سماعت کے لیے عدالت اٹک جیل منتقل کی گئی تھی، یہ نوٹی فکیشن وزارت قانون نے جاری کیا اور اسی کا ہی اختیار تھا، وزارت قانون نے این او سی جاری کیا کہ مقام کی تبدیلی پر کوئی اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ جیل ٹرائل کوئی ایسی چیز نہیں جو نہ ہوتی ہو، جیل ٹرائل کا طریقہ کار کیا ہو گا، اس حوالے سے بتائیں، پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے کہا کہ سائفر کیس کا ابھی ٹرائل نہیں ہو رہا، وزارت قانون نے قانون کے مطابق عدالت منتقلی کا نوٹی فکیشن جاری کیا۔

فریقین کے دلائل اور مؤقف سننے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس کی سماعت اٹک جیل میں کرنے کے وزارت قانون کے نوٹی فکیشن کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

 

اپنا تبصرہ بھیجیں