0

جسٹس جواد حسن نے زیر تعمیر للہ انٹرچینج جہلم دو رویہ ہائی وے کی تاخیر پر نوٹس لیتے ہوئے سخت برہمی کا اظہار کیا

پنڈ دادن خان( بیورو چیف ملک ظہیر اعوان) لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے جج جسٹس جواد حسن نے زیر تعمیر للہ انٹرچینج جہلم دو رویہ ہائی وے کی تاخیر پر نوٹس لیتے ہوئے سخت برہمی کا اظہار کیا ، لاکھوں عوام کو سفری مشکلات میں مبتلا کر نے کے وفاقی و صوبائی محکموں کے اعلیٰ ذمہ دار حکام آئندہ ہفتے عدالت میں ذاتی طور پر پیش ہو کر عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی وضاحت کریں عوام کی شدید سفری مشکلات کے پیش نظر عدالت کیس کی سماعت اب باقاعدگی سے ہفتہ وار کرے گی. تفصیلات کے مطابق
زیر تعمیر للہ جہلم دو رویہ ہائی وے کے فنڈز کی بندش سے متعلق لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں دائر کیس کی سماعت ہائی کورٹ کے جج جناب جسٹس جواد حسن نے کی. اس کیس کے تمام متعلقہ فریقین (وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، اور ایف ڈبلیو او) اپنے اپنے جوابات عدالت میں پہلے ہی جمع کرا چکے ہیں. کل اس کیس کی باقاعدہ سماعت ہوئی. پنڈدادن خان کے عوام کی جانب سے کیس پر ایڈووکیٹ مرزا آصف عباس نے دلائل کا آغاز کیا. جس کی معاونت سابق ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ملک عبدالعزیز اعوان اور سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ ملک غلام مصطفیٰ کندوال نے کی. ایڈووکیٹ مرزا آصف عباس نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ 128 کلومیٹر طویل للہ جہلم دو رویہ ہائی وے منصوبہ للہ انٹر چینج سے براستہ پنڈدادن خان ،جلالپور شریف ،بخاری چوک سے ہوتا ہوا دینہ کے مقام پر جی ٹی روڈ کو لنک کرتا ہے. جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل یہ منصوبہ آزاد جموں و کشمیر کو براستہ میر پور سے دینہ سے پنڈدادن خان اور پنڈدادن خان سے للہ انٹر چینج موٹروے کے ذریعے ملک کے چاروں صوبوں کے عوام کو انتہائی کم وقت میں آسان سفری سہولت کی فراہمی کے ذریعے لنک کرتا ہے. ملک کے چاروں صوبوں کے عوام کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل جولائی 2021ء میں شروع ہونے والے تین سالہ اس منصوبے کی تکمیل کا آخری مالی سال شروع ہو چکا ہے جو 30 جون 2024ء کو اختتام پذیر ہونا تھا جبکہ اس منصوبے کا ابتک بمشکل 30 فیصد کام مکمل ہوا ہے. تعمیراتی کمپنی ایف ڈبلیو او کو مزید مطلوبہ فنڈز جاری نہیں کئے گئےہیں لہٰذا وہ کام بند کر کے سائیٹ سے کنسٹرکشن مشینری بھی لیکر چلی گئی ہے. سڑک اکھاڑ کر رکھ دینے سے عوام کو شدید سفری مشکلات کا سامنا ہے. وفاقی وزارت منصوبہ بندی کمیشن اسلام آباد نے تقریباً 10 لاکھ عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے اس منصوبے کے مطلوبہ فنڈز سالانہ بنیادوں پر بروقت مختص نہ کر کے منصوبہ عملی طور پر بند کر کے اور اس کے بعد اپنی پسند کے مزید نئے پی ایس ڈی پی کے ذریعے عوامی منصوبے تیار کرا کے اور منظور کر کے اور ان کے فنڈز جاری کر کے پنڈدادن خان جہلم کے عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی کی حق تلفی کی ہے. جو کہ آئین اور قانون کی شدید خلاف ورزی ہے. ملک کے ایک علاقے کے عوام کو پہلے سے جاری بنیادی عوامی حقوق کی فراہمی روک کر ملک کے دوسرے علاقوں میں بسنے والے عوام کو ان پر ترجیح دینا حکومت کی جانب سے سرا سر ناانصافی اور زیادتی ہے جو کہ حکومت کی جانب سے مساویانہ بنیادی عوامی حقوق کی فراہمی کی کھلم کھلا قانونی خلاف ورزی ہے.
دلائل سننے کے بعد لاہور ہائی کورٹ کےجج جناب جسٹس جواد حسن نے منصوبے کی تاخیر کے وفاقی منصوبہ بندی کمیشن، وفاقی وزارت خزانہ، پنجاب کے صوبائی محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ، محکمہ کمیونیکیشن اینڈ ورکس، تعمیراتی کمپنی ایف ڈبلیو او اور دیگر ضلعی سطح کے متعلقہ سرکاری محکموں کے اعلیٰ ذمہ دار حکام کی بے حسی کا سخت نوٹس لیتے ہوئےسخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور متعلقہ اعلیٰ ذمہ دار حکام آئندہ ہفتے عدالت میں ذاتی طور پر پیش ہو کر عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی وضاحت کریں. عوام کی سفری مشکلات کے پیش نظر معزز عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کیس کی اب ہفتہ وار باقاعدگی سے سماعت ہو گی. تاکہ منصوبے کی تاخیر اور تاخیر کے وجہ سے اس کی لاگت میں اضافے کا باعث بننے والے اور عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی میں رکاوٹ بننے کے ذمہ داروں کا تعین ہو سکے.
کیس کی سماعت کے وقت عدالت میں پنڈدادن خان جہلم کے عوام کی نمائندگی بطور مدعی ملک عبید انور، بریگیڈیئر مشتاق احمد للہ، چوھدری محمد اکرم برق، خان عظیم حاکم خان ، کرنل راجہ رضا علی ، راجہ جواد جالپ ، سیدعلی یزدان بخاری، چوھدری محمد ولایت تارڑ، چوھدری محمد اکرم ٹھوٹھہ اور علاقہ معززین کی دیگر بڑی تعداد نے کی.اور اس امر کا اعادہ کیا کہ علاقے کے تمام لوگوں کو مل کر سیاسی وابستگیوں اور مفادات سے بالاتر ہو کر بلا امتیاز علاقے کے میگا پروجیکٹس کو مکمل کروانے کی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں.